مسئلہ حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ میں بحث کا خلاصہ،اسے ہر شخص کو پڑھنا چاہئے

مسئلہ حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ میں بحث کا خلاصہ،اسے ہر شخص کو پڑھنا چاہئے
India Islamic Academy Deoband
February 9, 2022

https://iiadeoband.com/summary-of-arguments-in-karnataka-hc-on-hijab-row/



ترجمہ و تلخیص:

مہدی حسن عینی قاسمی

ڈائریکٹر انڈیا اسلامک اکیڈمی دیوبند

کرناٹک ہائی کورٹ نے آج مؤرخہ 8/2/2022 کو کندرپارا کالج کے مسلم طلباء کے کیس کی سماعت کی جس میں کرناٹک حکومت کی طرف سے کالجوں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کیا گیا تھا۔
جسٹس کرشنا ایس دکھشت نے درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے معاملے کی اگلی سماعت کل 2.30 بجے دوپہر تک ملتوی کیا ہے اور انہوں نے طلباء اور عام لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی۔
بنچ نے کہا، ’’ہم دلیل سے فیصلہ کریں گے اور دستور کے ذریعے فیصلہ کریں گے،جنون یا جذبات سے نہیں۔‘
ایڈووکیٹ کامت نے قرآن اور حدیث سے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حجاب قرآن کا حکم ہے،
پردہ کرنا فرض ہے اور بدن کے اعضاء کا کھولنا حرام ہے،یہ مسلم خواتین کے شعار کا معاملہ ہے
بینچ نے تاریخی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ
“حکومت قرآن کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتی۔ پسند کا لباس (حجاب) پہننا بنیادی حق ہے، تاہم حکومت بنیادی حقوق پر قدغن لگا سکتی ہے۔ یونیفارم پر حکومت کا کوئی واضح حکمنامہ نہیں ہے۔ حجاب پہننا ایک عورت کی Privacy کا معاملہ ہے۔” معاملہ وہیں ہے۔ اس سلسلے میں حکومتی حکمنامہ Privacy کی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے۔”
سینئر ایڈوکیٹ دیودت کامت نے طلباء کی نمائندگی کرتے ہوئے عدالت میں کہا کہ “اسکولوں میں، کوئی نامہ پہنتا ہے، کوئی حجاب پہنتا ہے، یہ اس مثبت سیکولرازم کی عکاسی کرتا ہے جس کی ہندوستان میں پیروی کی جاتی ہے،”
کامت نے عدالت کو توجہ دلائی کہ “کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ کے سیکشن 7 کے تحت جاری کردہ ریاستی حکم نامہ ریاست کے اختیارات سے باہر ہے اور وہ ڈریس کوڈ کا تعین نہیں کر سکتا جو آرٹیکل 25، 19 اور 14 کی واضح خلاف ورزی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا، “کیا پہننا ہے یہ رازداری اور اظہار رائے کے حق کا ایک حصہ ہے اور اگر ڈریس کوڈ قرر کیا جائے تو وہ مناسب اور بنیادی حقوق کے مطابق ہونا چاہیے.
حجاب پہننے والی طالبات کو الگ سے بٹھانا “مذہبی نسل پرستی”کی ایک شکل ہے،اور “اچھوت پرستی کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا گیا ہے”۔
انہوں نے سوال کیا کہ ’’صرف امن و امان کی صورتحال ہی امن عامہ کا مسئلہ نہیں ہے… ایک لڑکی سر پر اسکارف باندھ کر اسکول جارہی ہے، یہ امن عامہ کا مسئلہ کیسے ہوسکتا ہے‘‘۔
ایڈووکیٹ جنرل کے اس مطالبے پر کہ عدالت احتجاج کرنے والوں پر فوری پابندی عائد کرے اس پر کامت نے کہا کہ عدالت آرٹیکل 19 کے حقوق کو معطل کرنے کے لیے دوسروں کے خلاف ا حکم امتناعی پاس کر سکتی ہے؟ جہاں تک درخواست گزاروں کا تعلق ہے، ہم کوئی احتجاج نہیں کریں گے۔ لیکن کیا دوسروں کو پابند کیا جا سکتا ہے؟کامت کا کہنا تھا کہ احتجاج کے خلاف بلینکٹ آرڈر پاس کرنے سے سنگین آئینی مسائل پیدا ہوں گے۔
جسٹس ڈکشٹ نے کہا: میں صبر سے سماعت کر رہا ہوں۔ عوا کو آئین پر اعتماد ہونا چاہیے۔ صرف ایک شرارتی طبقہ ہی معاملے کو سلگائے ہوئے ہے،لیکن احتجاج کرنا، سڑکوں پر نکلنا، نعرے لگانا، طلبہ پر حملہ کرنا، طلبہ کا دوسروں پر حملہ کرنا، یہ اچھی باتیں نہیں ہیں۔

جسٹس دکھشت نے یہ بھی کہا تو میں تمام لوگوں سے اپیل کرتا ہوں، میرا ماننا ہے کہ تمام لوگ اچھے لوگ ہیں، سوائے چند کے… میں تحریری حکم دوں گا۔
اے جی نے کہا کہ جب عدالت دلائل سن رہی ہے تب بھی کیمپس کے اندر اور اس کے باہر بہت کچھ ہو رہا ہے۔
اپنی تایید میں AG نے وہ
کسان مہاپنچایت معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا.
اختتام میں عدالت نے کہا کہ مسٹر کامت بھی AG کی تجویز سے وسیع اتفاق رکھتے ہیں۔ تاہم، وہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ کیا عدالت احتجاج پر پابندی لگانے کا کوئی حکم نامہ پاس کر سکتی ہے جب کہ مشتعل افراد اس کارروائی میں نامزد فریق نہیں ہیں۔
اس لئے معاملے کی مزید سماعت تک یہ عدالت طلبہ برادری اور عوام سے امن و سکون برقرار رکھنے کی درخواست کرتی ہے۔ اس عدالت کو بڑے پیمانے پر عوام کی حکمت اور خوبی پر پورا بھروسہ ہے اور اسے امید ہے کہ اس پر عمل کیا جائے گا۔
جسٹس دکشھت نے اخیر میں کہا کہ
میں کل بھی سماعت جاری رکھوں گا۔ سب بحث کر سکتے ہیں،لیکن اس بات کو یقینی بنائیں کہ تعلیمی سال کے اختتام تک دلائل نہ چلیں۔ ریکارڈ پر موجود ہر شخص کو اجازت دی جائے گی، بغیر کسی نقل کے۔ اسے مختصر رکھیں۔
ایڈووکیٹ کامت نے پھر کہا کہ اگر غنڈے بدمعاش امن عامہ میں خلل ڈال رہے ہیں، تو یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان لڑکیوں کے اسکول جانے کے حقوق کا تحفظ ہو۔
پھر سے بحث شروع ہوگئی،
کامت کا کہنا تھا کہ کل حجاب پہننے والی لڑکیوں کو اندر جانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن انہیں الگ ہال میں بٹھا دیا گیا تھا،
اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عرضی قانون تک محدود ہونا چاہیں نہ کہ سیاست پر مبنی،
کامت نے کہا کہ میری درخواست ہے کہ اس طرح کی علیحدگی آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ عدالت کے اندر اظہار رائے کی آزادی کو دبایا نہیں جا سکتا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے ایک بار پھر اعتراض کیا کہ کامت کی جانب سے حجاب پہننے والے بچوں کو الگ سے بٹھانے کے حوالے سے امریکی کیس کو بطور حوالہ پیش کرنا مناسب نہیں ہے،
کامت نے فوراً جواب دیا کہ کا کم از کم 10 ایسے فیصلے ہیں جن میں ہندوستانی عدالتیں “براؤن وی بورڈ آف ایجوکیشن” میں امریکی فیصلے کا حوالہ دیتے ہیں۔
بنچ نے پوچھا کہ نکتہ یہ ہے کہ اسے اپنایا گیا ہے یا صرف حوالہ ہی دیا گیا ہے؟
ایڈووکیٹ کامت نے کہا کہ براؤن کے فیصلے میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے اس سے قطع نظر ہمارے پاس ہماری حفاظت کے لیے آئین ہند کاآرٹیکل 14 ہے۔
اس لئے خلاصہ یہ ہے کہ ریاستی حکمنامہ
سب سے پہلے، یہ آرٹیکل 25، 19 اور 14 کے تحت حق کی مکمل توہین ہے۔
دوسرا یہ کہ یہ حکمنامہ عوامی نظم و ضبط کو بگاڑ کر رکھ دے گی،
اس لئے ہم عدالت سے عبوری فیصلہ کی درخواست کرتے ہیں کہ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ وہ طالبات کافی عرصے سے حجاب کے ساتھ کلاسز میں شرکت کر رہی ہیں، اور یہ کہ امتحانات قریب ہیں، برائے مہربانی انہیں سہولت کے توازن کی بنیاد پر کلاسز میں شرکت کی اجازت دیں۔
جسٹس دکھشت نے پوچھا کہ انہیں کتنے عرصے سے کالج جانے سے روکا گیا ہے؟
کامت: میں کنڈا پورہ کالج کے طلباء کی نمائندگی کرتا ہوں۔ انہیں گزشتہ 4-5 دنوں سے روک دیا گیا ہے۔
اس پر عدالت نے کہا ٹھیک ہے آپ سب پوری تیاری کرکے آئیں اب ہم کل سماعت کریں گے.

کوئی تبصرے نہیں