شہرنگاراں سےشہرخموشاں تک

*شہرِ نگاراں سے شہرِ خموشاں تک* 


 *محمد فہیم الدین بجنوری* 

خادمِ تدریس دارالعلوم دیوبند 

26 جمادی الاولی 1434ھ 13دسمبر 2021 ء 


 میں نے1980ء میں، ضلع بجنور کے ایک متوسط گاؤں میں آنکھیں کھولیں، آبادی مخلوط تھی؛ لیکن مسلمان اکثریت میں تھے، محلے کا اکلوتا ٹی وی حاجی محمد علی کے یہاں تھا؛ وہاں فضا ناہموار ہوتی، یا مدرسے کے حافظ جی کی سی سی ٹی وی نگاہیں تعاقب کرتیں، تو ناچار گرد ونواح کا رخ کرتے، خوش وقتی کا داعیہ سرکش ہوتا، تو ہندو گھرانوں کا آپشن بھی فراہم تھا، اسی مد سے، گاؤں کے سب سے متمول ہندو دھرم پال کی عالی شان کوٹھی میں، بے تکلف گھومتے تھے، گھر کے کسی فرد کا چیں بہ جبیں ہونا یاد نہیں، ٹی وی اسکرین ہماری تسکین تھی؛ مشمولات سے بے نیاز تھے؛ چناں چہ اس قبیل کی مہم میں، مجرد دیو مالائی داستانیں بھی حصے میں آتیں۔ 


 گاؤں کا بازار ہندو آبادی میں واقع تھا، موقع کی اجناس کے تجسس میں، ملحقہ گھروں میں گھس جاتے تھے، بعض گھریلو خواتین - صاحب خانہ کی لاعلمی میں- چاول یا گیہوں کم قیمت پر بیچتی تھیں، الغرض! ایسی آمد ورفت عام تھی۔


 یوں تو ہندو مسلم گھرانے جداگانہ رہائش پذیر تھے؛ لیکن نرجن کا گھر ہر چہار سو مسلم آبادی سے گھرا تھا، سبزی فروش نرجن کے بیشتر گاہک مسلم تھے، جوتازہ سبزیوں کے لیے کھیت تک اور بہتر دھنیے کے لیے اندرون خانہ تک چلے جاتے تھے، اس کا دوسرا پیشہ پکوڑی سازی تھی، بازار میں ان کے حریف اصغر میاں تھے؛ لیکن مسلم اکثریتی خریداروں میں، اول الذکر کی مقبولیت کبھی متاثر نہیں ہوئی، اس کے بیٹے چکمہ دینے میں کام یاب ہوتے، تو کرکٹ کے میدان میں، ہمارے ساتھ شیر وشکر ہوجاتے اور ان شاء اللہ ماشاء اللہ میں گھل مل جاتے۔


 بانوے کی قیامت لاشعوری میں گذری، بس اتنا یاد ہے کہ قرب وجوار کے بعض گھرانے، ہمارے گاؤں میں پناہ گزین ہوئے، ہماری حویلی میں بھائی عباد الرحمن کے اوپر والے حصے میں بھی، ایک خاندان ہفتوں مقیم رہا۔


 1999ء میں چشمِ سر شعور یافتہ ہوچکی تھی، مادر علمی کی دستار فضیلت بھی سر کو زینت بخش رہی تھی، مقامی نگاہوں میں تبدیلی وچبھن کے تجربات کا آغاز اسی میعاد میں ہوا، واجپائی دور تھا، جس نے نئی پانچ سالہ میعاد پوری کی، اس دوران دہلی وغیرہ نزدیکی آمد ورفت کے علاوہ، بمبئی، بنگلور اور کشمیر جیسے دور راز اسفار بھی خوب ہوئے، آج ”شاعر دل“ وزیر اعظم کی وضع داری کو یاد کیا جاتا ہے؛ لیکن اس وقت بھی مہیب سایے خوب دندناتے تھے، دو ہزار چار آتے آتے، ملک کا ماحول فرقہ پرستی کی سمت بڑی جست لگا چکا تھا؛ بالخصوص شمالی ہند کی فضا پوری طرح مسموم ہو گئی تھی، جس میں اسلامی شناخت، "انگارہ بدست" کے مترادف تھی، میں اس وقت کانپ اٹھا، جب میرے گاؤں کے ایک سادہ لوح مسلمان نے، عجیب حسرت میں کہا کہ مولانا اب آپ کا اور آپ کے مدرسوں کا کیا ہوگا؟


 دو ہزار چار میں اللہ کو رحم منظور ہوا، واجپائی کا فرضی درخشاں ہندوستان، سونیا کی حقیقی سیکولر اپیل سے شکست کھاگیا اور فرقہ پرست بھوت، دس سال جد وجہد اور صف درستگی کے مرحلے تک محدود ہوا؛ لیکن یہ "عارضی خیریت" بہت مہنگی ثابت ہوئی؛ کیوں اس بار جن اپنی بوتل سے علانیہ خروج کرنے والا تھا اور برہنگی کے تماشے نئی مثالیں قائم کرنے والے تھے۔


 "اُلُّو کی نحوست" بہترین محاورہ ہے؛ لیکن اس کا تعدیہ اب معلوم ہوا، گلستانِ ہند میں ایک اُلُّو درآمد ہوا تھا؛ لیکن سات سال بعد ہر شاخ اُلُّوؤں سے گراں بار ہے، ”دھرم سنسدوں“ کی برہنگی کا دفاع اس کا بین ثبوت ہے، ایسے واقعات کو استثنا سمجھنے والے سوشل میڈیا کا جائزہ لیں۔


 اس میں شبہ نہیں کہ ایودھیا اور کاشی مجرد سیاسی موضوع نہیں؛ اس جنون کی جڑیں دھرم اور عقیدے میں ہیں؛ لیکن نا اہل وزیر اعلی کی، انتہائی ناقص کارکردگی سے بوجھل، بی جے پی کے لیے، ان موضوعات کی سیاسی گرمی ناگزیر ہوگئی ہے، موجودہ سی ایم کے رپورٹ کارڈ کی خواری نے، میدان کا رنگ تبدیل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، ان کا ریسرچ کہتا ہے کہ "اکثریتی بالا دستی" کی خوراک، بھوک اور روزگار؛ دونوں پر بھاری پڑنے والی ہے۔


 اروند کیجریوال، ممتا بنرجی اور اکھلیش یادو؛ وہ سیاست داں ہیں، جن کے سیکولر ازم کی قسمیں کھائی گئیں؛ لیکن ”دھرم کرنسی“ کی گرم بازاری میں، انھوں نے بھی اپنے پرانے نوٹ تبدیل کروالیے ہیں، اول الذکر دونوں نے بالترتیب دہلی وبنگال میں،  کرسی بحالی کے لیے، مذہبی علامتوں کا برملا سہارا لیا؛ جب کہ ہمارا نوجوان پانی پی پی کر وہی نغمے دہرا رہا ہے؛ چناں چہ مودی یوگی جن”دھارمک رموز“ پر ہاتھ رکھتے ہیں، یادو صاحب اس میں اپنے حصے کی یاد دہانی بلا تاخیر کراتے ہیں؛ حتی کہ کاشی کوریڈور افتتاح کے دن، وہ پرانی فائلوں سے، اس کا کریڈٹ بھی نکال لائے۔


 ہندوستان اور یہاں کے مذاہب کی ہزاروں سالہ تاریخ، بارہ سو سال میں سمٹ گئی ہے،  سرزمین ہند پر، نہ اس سے قبل کچھ ہوا، نہ اس کے بعد، حد یہ ہے کہ یوپی الیکشن میں 2022 ء کی بات کرنے والے شکست سے خوف زدہ ہیں؛ جب کہ گیارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی کے راگ الاپنے والوں کی فتح یقینی سمجھی جارہی ہے، مخصوص رجحان میں جبر کا رنگ ایسا غالب ہے کہ ہماری سیاست ونوے ہوکر رہ گئی ہے۔


  ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بنانے کے فراق میں قانونی حماقتوں کی داستان بھی لامتناہی ہوگئی ہے، عقل وخرد کا تازہ ماتم یہ ہے کہ جسم وشعور؛ دونوں اعتبار سے بلوغ کے بعد بھی، حق ازدواج حاصل نہیں ہوگا، آزادی نسواں وحقوق خواتین کی نئی ترجمانی بھی یہی قرار پائے گی؛ جب کہ بلوغ کے بعد، حیات مستعار کے سب سے خوش گوار تجربے کی راہ ہم وار کرنا اور صنف نازک کی نسبت، احساس تحفظ کے سب سے قوی عنوان کو ہم رشہ کرنا؛ ظلم وزیادتی کہلائے گا۔


 وطن عزیز، جو کبھی ”شہرِ نگاراں“ تھا، وہ ”شہرِ خموشاں“ میں تبدیل ہونے کے لیے بے قرار ہے، فرضی خوف نے، اس کی تیز گامی کو قیامت کی رفتار عطا کردی ہے، دوسری طرف اس کی بلاؤں کے قدیم قدردانوں کی صفیں لرزاں وترساں ہیں، جاں بہ لب سیکولر فارمولے کے خریدار، یکے بعد دیگرے، دوکانیں بڑھانے میں مصروف ہیں، آگے کیا ہوگا؟ اس جواب کے واضح خدو خال کسی کے پاس نہیں؛ تا ہم عہدِ رواں کے عظیم انقلابی شاعر کی درج ذیل یاد دہانی، کسی بھی ممکنہ لائحہء عمل کی اساس ہوگی:


اب کے جو  فیصلہ ہوگا وہ یہیں  پر  ہوگا

ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی

                                             راحت اندوری

کوئی تبصرے نہیں