*روس و یوکرین جنگ اور عالمی برادری میں خموشی!!*

🌸 *صدائے دل ندائے وقت* 🌸(1563)
     *روس و یوکرین جنگ اور عالمی برادری میں خموشی!!*
             *ایک زمانے میں دنیا کی تیسری عظیم طاقت کہلانے والی اب خطرے میں ہے، اس کا وجود مٹنے کو ہے، ایک بڑا ملک اسے اندر سما لینے کو بیتاب ہے، جو کسی زمانے میں نیوکلیر ہتھیار کا ذخیرہ رکھتا تھا اب وہ دنیا سے گہار لگا رہا ہے کہ اسے بچالے، اس کے وجود کی حفاظت کرے، خود صدر میڈیا کے سامنے لجاجت بھرے انداز میں گویا ہیں، دنیا کو پکار رہے ہیں، مغربی ممالک کو تعاون کیلئے دعوت دے رہے ہیں؛ لیکن ہر طرف سناٹا ہے، کوئی بھی ملک پیش قدمی کرنے کو تیار نہیں ہے، یہ ملک یوکرین ہے اور اسے اس عالم میں پہنچانے والا روس ہے، آج دن بھر دارالحکومت kyiv (Kiev) کِیو میں راکیٹس داغے جاتے رہے، سائرن کی آواز پورے ملک میں گونج رہی ہے، خطرے کی یہ گھنٹی سن کر ملک بھر میں ہلچل ہے، دھواں آسمان چھو رہا ہے، اور پورے افق کو گھیرے ہوئے ہے، افواج کی کاروائی دوسری طرف ہیں، ٹنیک، بکتر بند گاڑیاں اور ہتھیاروں سے لیس ٹرکوں نے سرحدیں بلاک کردی ہیں، ایک ایک تصویر دل دہلا دینے والی ہے، عالمی نیوز ایجنسیاں اور ملکی خبر رساں ادارے بھی حیران وششدر ہیں کہ اکیسویں صدی کے دو ترقی یافتہ ملک، دنیا بھر کو جمہوریت اور امن و سلامتی کا ہوَّا کھڑا کرنے والے کس طرح ایک دوسرے سے پنجہ آزما ہیں اور عالمی برادری خموش تماشائی بنی ہوئی ہے، اور عموماً اسے بچانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہی ہیں، حالانکہ یہ ملک یوکرائن (یوکرینی: Україна، نقحر: اُکرائنا‎) ایک مشرقی یورپی ملک ہے، جو اپنے خطے، آبادی اور وسائل کے اعتبار سے بھی عام ملک ہے، البتہ ماضی میں یہ ١٩٩١ء تک سوویت یونین کا حصہ تھا، وہ سویت یونین جس کے پندرہ ممالک ممبر تھے اور جن کی دھاک دنیا بھر میں سنائی دیتی تھی، جو سپر پاور تھے، مگر افغانستان سے بے جا جنگ نے اسے تہس نہس کردیا اور وہ بکھر گیا، ایسے میں پندرہ آزاد ممالک وجود میں آئے جن میں سے ایک یوکرین ہے، اوکراین روس، پولستان، بیلاروس، سلوواکیہ، مجارستان، رومانیہ اور مالدووا کے ساتھ اس کی سرحدیں ملتی ہیں، آزادی کے وقت سویت نے اپنے اکثر نیوکلیئر یوکرین کے پاس رکھے ہوئے تھے؛ لیکن امن و آشتی کی باتیں اور سنہرے وعدے کر کے امریکہ اور برطانیہ نے اسے تباہ کرنے پر مجبور کردیا، نتیجتاً آج وہ نہتا کھڑا ہوا ہے، اس کی آبادی لگ بھگ پانچ کروڑ ہے، اسی طرح یوکرین میں مذاہب عمومًا تین حدود میں منقسم ہیں: رومن کیتھولک فرقہ، مشرقی مذہبیت اور اسلام۔ یہاں کیتھولک لتھووینیا اور پولینڈ، کِیفی اور ماسکوئی قدامت پسندی، تاتار اور عثمانی تہذیب کے اثرات پائے جاتے ہیں، جن کے ساتھ ساتھ سوویت ورثہ بھی موجود ہے جس سے کہ الحاد کو فروغ ملا ہے، یہ سب یوکرینی شہریوں کے موجودہ دور کے عقائد اور سابقہ دور عقائد کی نشو و نما طے کیے ہیں، بہائی بھی یہاں ہیں، مگر سب سے زیادہ ملحدین ہیں، جو ٦٣٪ تک ہیں، مسلمان محض صفر ٦٪ فیصد ہیں، بقیہ متفرق مذاہب تین فیصد سے زائد ہیں.*
      *روس کا اس ملک سے خاص تعلق ہے؛ بلکہ پوتن اور بہت سے روسی تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اصل میں روس کا ہی ایک حصہ ہے، ٢٠٢١ء میں پوتن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا بھی تھا کہ یوکرین کی بھلائی روس کے ساتھ ہے، اور اسے اپنے ساتھ ضم کرنے کی بات کہی تھی؛ نیز یوکرینیز کو روسی کہا تھا، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ یوکرین کا مرکزی حصہ اور مغربی علاقہ روس کے خلاف ہے، وہ انہیں برداشت کرنا نہیں چاہتا، ان کا کہنا ہے کہ روس ہم پر زبردستی قبضہ کرنا چاہتا ہے، اس کے خلاف اکثر و بیشتر احتجاجات ہوتے رہے ہیں، مگر اس ملک کا مشرقی یوکرین کی تہذیب روسی ہے، وہاں لوگ بھی رَشیا سے قربت محسوس کرتے ہیں، وہاں کے لوگوں نے روس کو خوب سپورٹ کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ روس کی مدد سے وہاں کے بعض سیاست دانوں کا اثر و نفوذ اتنا بڑھا کہ رَشین زبان کو یوکرین کی دوسری زبان قرار دے دیا، اس سے پہلے صدر بھی روسی نواز سمجھے جاتے تھے، جنہیں گزشتہ سال شکست دے دی گئی، پوتن نے اپنی سیاسی زندگی میں بڑی کوششیں کی ہیں کہ وہ یوکرین میں نفوذ حاصل کر لیں، یہی وجہ ہے کہ ٢٠١٤ء میں روس نے یوکرین میں دراندازی کی تھی اور تبھی روس کے حمایت یافتہ باغیوں نے مشرقی یوکرین میں بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور اس وقت سے وہ یوکرینی فوج سے برسرِپیکار ہیں، یہ علاقہ کرائمیا کا تھا، اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیے ایک معاہدہ جسے ’منسک امن معاہدہ‘ کہا جاتا ہے طے پایا لیکن یہ تنازع جاری رہا اور اب صدر پوتن نے مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیرِ قبضہ دو خطوں کو بطور آزاد علاقے تسلیم کرنے کے بعد وہاں روسی دستے بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح صدر پوتن نے مغرب کو خبردار کیا ہے کہ وہ یوکرین پر روس کی ’سرخ لکیریں‘ (ریڈ لائنز) عبور نہ کرے۔ تو وہ سرخ لکیریں کیا ہیں؟ ان میں سے ایک نیٹو کی مشرق میں مزید توسیع ہے، جس میں یوکرین اور جارجیا کے ممالک شامل کرنا ہیں۔ روس یہ بھی چاہتا ہے کہ نیٹو مشرقی یورپ میں فوجی سرگرمیاں ترک کر دے، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ پولینڈ اور ایسٹونیا، لٹویا اور لتھوینیا سے اپنے لڑاکا دستوں کو نکالنا، اور پولینڈ اور رومانیہ جیسے ممالک میں میزائل نہ لگانا شامل ہیں۔ مختصراً روس یہ چاہتا ہے کہ نیٹو اپنی سنہ ١٩٩٧ء سے پہلے کی سرحدوں پر واپس آ جائے اور کسی بھی حال میں نیٹو کا حصہ نہ بنے، نیٹو ٣٣/ ممالک کا متحدہ فوجی مجموعہ ہے، اگر یوکرین کو اس میں شامل کرلیا گیا تو روس اس کے مقابل میں بے دست و پا ہوجائے گا اور اپنے پڑوس اس قدر مضبوط ملک وہ کبھی برداشت نہیں کرسکتا، صدر پوتن کا کہنا ہے کہ روس کا مقصد خونریزی سے بچنا اور سفارتی راستہ تلاش کرنا ہے؛ لیکن اس قسم کا مطالبہ ناکام ہونے کا امکان کافی زیادہ ہے۔ روس پہلے ہی یوکرین کی طرف سے مشرقی یوکرین میں روسی حمایت یافتہ افواج کے خلاف ترک ڈرونز کی تعیناتی اور بحیرہ اسود میں مغربی فوجی مشقوں سے پریشان ہے۔ صدر پوتن کی نظر میں یوکرین کے لیے امریکی فوجی مدد ’ہمارے گھر کی دہلیز پر‘ مداخلت ہے۔ روس اس بات پر بھی مایوس ہے کہ ٢٠١٥ء کا منسک امن معاہدہ جس کا مقصد مشرقی یوکرین میں تنازع کو روکنا تھا، پورا ہونے سے بہت دور ہے۔ علیحدگی پسند علاقوں میں انتخابات کے لیے آزادانہ طور پر نگرانی کرنے والے اہلکاروں کا ابھی تک کوئی انتظام نہیں ہوا۔ روس ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ وہ اس دیرینہ تنازع کی وجہ ہے، جو بھی روس امن کے نام پر یوکرین پر قبضہ کرنے یا پھر اسے برباد کرنے پر آمادہ ہیں اور دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے.*

     ✍️ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
24/02/2022

کوئی تبصرے نہیں