عالمی منظر نامے پر کیا تبدیلی آرہی ہے ؟* تجزیہ : علی ہلال

*عالمی منظر نامے پر کیا تبدیلی آرہی ہے ؟* 

تجزیہ : علی ہلال
 
دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی سطح کا جو منظرنامہ بنا تھا اس کے بکھرجانے کے امکانات،شواہد اور آثار اب باقاعدہ رونما ہونے لگے ہیں ۔
 
1945 میں اقوام متحدہ بناکر دنیا کو یہ باور کروایا گیا تھا کہ اب کوئی ملک دوسرے پر جنگ مسلط کرکے قبضہ نہیں کرسکے گا ۔ غلامی کی رسمی شکل ختم کردی گئی ۔
برصغیر میں برطانوی راج کا خاتمہ ہوا ۔ افریقہ میں فرانسیسی استعمار نے بوریاں بستر لپیٹ دیا ۔جس سے بشمول متعدد اسلامی ممالک کے کئی سارے ممالک دنیا کے نقشے پر ابھرآگئے ۔ 
 تجزیہ کرکے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم پہلی جنگ عظیم کا تکملہ تھی ۔ پہلی جنگ عظیم میں مسلمانوں کی بڑی سلطنت کا خاتمہ ہوا اوردوسری جنگ عظیم میں متعدد ممالک وجود میں آگئے ۔
 
حقیقت یہ کہ عالمی نظام کے کیک میں مسلمان ممالک کو کوئی حصہ نہیں دیا گیا ۔ اس دوران متعدد اسلامی ممالک پر جنگیں مسلط کردی گئیں مگر عالمی اداروں کا کردار کوئی زیادہ موثر نہیں رہا ۔
افغانستان کی جنگ کے دوران عالمی سطح پر ایک مرتبہ پھر عالمی قوتوں کی اپنی سابقہ پوزیشن پر جانے کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں  ۔ 
 یہ تیاریاں مگر ماضی جیسی نہیں ہیں  ۔ 2024 میں سلطنت عثمانیہ کے ٹکرے کرنے کے عمل کو قانونی شکل دینے والے معاہدہ لوزان کی ایک صدی پوری ہورہی ہے ۔ اسی مناسبت سے دنیا ممکنہ طورپر ایک مرتبہ پھر سیاسی وعسکری سطح پر ایک بار بڑی تبدیلی کا نشانہ بنے گی ۔ 
مگر قرآئن و شواھد سے لگ یہی رہا ہے کہ دنیا میں ایک مرتبہ پھر ماضی کی بڑی قوتیں اپنا کھویا ہوا وجود جوڑنے کا فیصلہ کرچکی ہیں ۔ ان بڑی قوتوں میں فرانس ، روس ،چین  اور ترک سرفہرست ہیں ۔ اس وقت براعظم افریقہ میں فرانس ،روس اورچین کے درمیان رسہ کشی عروج پر ہے ۔ 
موجودہ عالمی منظر نامے میں متنازع ترین یا باالفاظ دیگر عالمی قوتوں کی دلچسپی کے اہم پوائنٹس کے طورپر مشہور علاقوں میں  مشرقی یورپ، شمالی ،وسطی ،مغربی افریقہ اورمشرق وسطیٰ کے نام سرفہرست ہیں ۔
آپ شام ،لیبیا ،مالی اورمشرقی یورپ میں دیکھیں گے تو روس، برطانیہ ،فرانس اور چین ہی کی عسکری سرگرمیاں نظرآئیں گی ۔ 
اسلامی دنیا میں ترکی واحد ملک ہے یا بالفاظ دیگر ترک واحد قوم ہیں جو اس بڑی تبدیلی میں خود کو حصۃ دار سمجھتے ہیں اوراس کھیل میں شامل ہیں ۔

 (اس کھیل میں ایران بھی فارسی سلطنت کے احیا کے لئے سرگرم ہے ۔ایران نے مشرق وسطیٰ میں کئی ممالک کے اندر گروپ بناکر اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے مگر عرب ہونے کے ناطے ایرانی وفادار اب فارسی ازم کے توسیعی منصوبے میں موثر کردار ادا نہیں کرسکتے ۔ عراق میں مقتدی الصدر نے فارسی ازم کے خلاف نعرہ لگاکر نقب لگادی ہے ) ۔
 ایران کو ترکی کی جانب سے زبردست مقابلے کا سامنا ہے ۔ کردستان سے پٹی سے لیکر آذربائیجان سے ہوتے ہوئے کوہ قاف کی وسعتوں تک ترکی چھ ممالک پر مشتمل ترک کونسل بھی بناچکا ہے ۔ ترکوں کی سمھداری یہ ہے کہ انہوں نے عربوں کے برعکس اپنی صفوں میں سیاسی اسلام اور معتدل اسلام کی تقسیم کو جگہ نہیں دی  ۔ بلکہ بھیڑیا کا نشان اٹھانے والے قوم پرستوں اور اسلام پسندوں نے ایک دوسرے کو قبول کیا ہے ۔ ترکی کا صدارتی ریفرنڈم اس کا شاندار مظاہرہ ہے ۔ 
جس کے بعد سے ترک صدر افریقہ اورشمالی یورپ میں انتہائی جرات مندانہ انداز سے رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے لگ یہی رہا ہے کہ اب نئے عالمی منظرنامے میں دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آنے والے ممالک کو اپنا جغرافیائی وجود برقراررکھنے کے لئے عالمی بلاکس میں سے کسی ایک کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا ۔ بصورت دیگر تبدیلی کا یہ سلسلہ بہت سوں کو بہا کر لے جاسکتا ہے ۔ 
آج الجزیرہ سے بات چیت کرتے ہوئے یوکرین کے علاقے لوگانسک میں روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند راہنما نے روسی حملے کو گریٹر روس ( سوویت یونین ) کی بحالی کا سنگ بنیاد قرار دیا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں