باحجاب طالبات کی آواز اور علمائے کرام کی خاموشی

باحجاب طالبات کی آواز اور علمائے کرام کی خاموشی

 اتواریہ؍ شکیل رشد

سرو ں سےبرقعے اور چہروں سے حجاب کھینچے جارہے ہیں اور علمائے کرام خاموش ہیں! اور جو خاموش نہیں ہیں وہ اخباروں میں ، اپنی تصاویر کے ساتھ بیان دیتے پھررہے ہیں کہ برقعے اور حجاب پر پابندی کے معاملے کو سڑکو ں پر نہ لایا جائے ! سوال یہ ہیکہ پھر کیا کیا جائے ؟ کیا مائیں اور باپ اپنی بیٹیو ںسے کہہ دیں کہ ’ایسا کریں اب آپ برقعہ اور حجاب اتاردیں؟‘ سوال یہ ہیکہ اگر آپ کے ساتھ جبر کیا جارہا ہے ، آپ سے آپ کے بنیادی حقوق چھینے جارہے ہیں ، آئین نے آپ کو جو مراعات فراہم کی ہیں ، سہولیات دی ہیں ، ان سے محروم کیا جارہا ہے ، تو کیا اس کا علاج ’خاموشی‘ ہے ؟  کیا آواز اٹھانا جرم ہے ؟ اس ملک میں ، جسے جمہوری اور سیکولر کہتے  ہمارے علمائے کرام اور دانشوروں اور ان سے بھی زیادہ مسلم سیاست دانوں کی زبانیں نہیں تھکتیں ،ہر ایک شہری کو اپنے حق یا حقوق کے لیے پرامن طور پر آواز بلند کرنے کی اجازت ہے ، تو کیو ںنہ اس اجازت کا استعمال کیا جائے اور ساری دنیا کو یہ بتایا جائے کہ مسلمانوں کے حقوق خطرے میں ہیں؟ حجاب کے معاملے میں علمائے کرام کی خاموشی نے مسلم بچیوں کو بڑا ہی دکھ دیا ہے ، اتنا دکھ کہ باحجاب بچیوں کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا ہیکہ اگر علمائے کرام یہ چاہتے ہیں کہ بچیاں حجاب کے معاملے پر آواز نہ بلند کریں تو پھر’’آپ مسجدوں سے اعلان کردیں ہم حجاب اتادیں گے۔‘‘ اب جواب دیں ان بچیوں کو ہمارے علماء۔۔۔ یہ ناراض بچیاں اگر حجاب اتارنے لگیں تو پھر علمائے کرام کیا کریں گے جو پہلے ہی سے ’ارتداد‘ اور مسلم بچیوں کی غیروں سے شادیوں کے مسائل  کا کوئی حل نہیں نکال سکے ہیں؟ آج باحجاب بچیاں جو جنگ لڑرہی ہیں اس میں ان کی ہمت افزائی کی ضرورت ہے ، ان کی پشت پناہی کی ضرورت ہے ، ان کی مدد کی ضرورت ہے ۔۔۔ افسوس یہ ہیکہ ہمارے دینی قائدین  صرف اس لیے باحجاب طالبات کی تحریک سے ناراض ہیں کہ اس سے انہیں یہ لگتا ہے کہ ’’فرقہ پرستوں‘ کو بالخصوص آر ایس ایس  اور بی جے پی کو ’’ فائدہ‘‘ پہنچے گا! انہیں یہ بھی لگتا ہیکہ اس سے ’تشدد‘ پھوٹ سکتا ہے ۔ جناب ، ان فرقہ پرست عناصر کو جو فائدہ پہنچنا ہے وہ تو ہر حال میں پہنچے گا، چاہے آپ آواز بلند کریں یا خاموش رہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ اپنی بات کہی جائے ۔علمائے کرام کو یہ احساس مارے ڈال رہا ہیکہ اس بار بچیاں خود آگے بڑھ آئی ہیں اور قیادت ان کے ہاتھوں سے نکل گئی ہے۔ ایک بات یہ بھی ہیکہ  ہمارے دینی اور مذہبی قائدین میں دوراندیشی کا فقدان ہے اس لیے وہ کبھی بھاگوت سے ملتے ہیں ، کبھی آر ایس ایس سے مذاکرات کو درست سمجھتے ہیں ، کبھی کہتے ہیں کہ سیکولر پارٹیوں سے بہتر تو بی جے پی ہی ہے ، اور کبھی خود آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرائی کرلیتے  ہیں ، ہر کوئی الگ الگ سیاسی پارٹی کا ہمنوا بنا پھرتا ہے ، کوئی ایس پی میں ، کوئی کانگریس میں تو کوئی بی جے پی میں۔۔۔ اس طرح تو ہوا اور اکھڑ جاتی ہے ! کیا ہمارے مذہبی اور دینی قائدین ، بورڈ،جماعتیں اور تنظیمیں اپنے مفادات سے اوپر  اٹھ کر باحجاب طالبات اور بچیوں کی آواز میں آواز ملانے کے لیے اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کریں گی؟ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں