بھارت میں "یکساں سول کوڈ" نافذ کیا جارہا ہے*
*بھارت میں "یکساں سول کوڈ" نافذ کیا جارہا ہے*
_(مفتی انورخان سرگروہ, ماہم ممبئی)_
فاضل: جامعہ اسلامیہ، ڈابھیل گجرات
بھارت میں اسلام کے شعائر اور مسلمانوں کی مذہبی وتہذیبی قدریں خطرے میں ہیں.
منووادی بھاجپائی نظریے کی رتھ یاترا بابری مسجد کے انہدام سے شروع ہوئی اور لجاّ کی تمام حدیں پار کرکے "آستھا" کی غیرحقیقی زمین پر عدالتی جیت حاصل کی گئی.
یہ پہلے سے معلوم تھا کہ منووادیوں کا رتھ کہیں تھمنے والا نہیں تھا، چنانچہ بابری مسجد پر مسلمانوں کے بےاختیار تحمّل کو دیکھ کر انہوں نے طلاقِ ثلاثہ کو ایشو بنایا اور شریعت میں مداخلت کرتے ہوئے طلاق پر قانون وضع کیا، اور قرآن وحدیث میں مداخلت کا ارتکاب کیا ہے.
اب کہ ان کا نشانہ "حجاب" ہے، اور بھارت کی عدالتوں میں "حجاب کی شرعی حیثیت" پر بحث چل رہی ہے، جبکہ جمہوری ملک میں "پہناوے کی آزادی" پر بحث ہونی چاہئے تھی، مطلب یہ ہوا کہ کفاّر ومشرکین اب مسلمانوں کو ازروئےشرع لباس پہننے کا طریقہ سکھانے والے ہیں.
آج منووادی شیطنت بےحجاب ہوکر سامنے آچکی ہے، چنانچہ مسلمانوں کا یہ موقف صاف ہونا چاہئےکہ حجاب بنیادی انسانی حق ہے، جمہوری اختیار ہے، قدیم تہذیبی ورثہ ہے، اسلئے اسے اندھے قانون کی دہلیز پر نہیں پرکھا جاسکتا ہے بلکہ سڑکوں پر جمہوری مظاہروں سے ثابت کیا جائےگا، اوربچکاّجام تو اصلِ جمہوریت ہے.
امّت پر اس سے برا وقت نہیں آن پڑا تھا کہ ان کے معاملات میں "کافرین" یہ طے کریں کہ "مسلمین" کیسا لباس پہنیں ہے اور کیا کچھ اوڑھیں گے، کیونکہ بھارت کے پرانے، بےترتیب اور بےتہذیب کلچر کو مہذب مسلمانوں نے بنایا ہے، دھوتی کی جگہ شلوار یہ اسلامیانِ ہند نے عطا کیا ہے، بھارت کی خواتین کے مہذب لباس مسلمانوں کی دَین ہیں.
اسلامی طرزِ حیات اور مسلمانوں کی بھرپور تہذیب وثقافت کے ثابت شدہ احسانات کے باوجود عدالت کی چھترچھایا میں یکے بعد دیگرے قوانین پاس کئےجارہے ہیں، یہ "یکساں سول کوڈ" کے نفاذ کی مختلف شکلیں ہیں، اور منشا یہ ہےکہ مسلمانوں کے ظاہروباطن کو منووادیوں کی سمرتی میں ڈھال دیا جائے.
منووادی بھاجپائی اور ان کے ہمنوا لبرلز یہ سمجھ لیں کہ مسلمان تمہارے مکر وفریب کو جانتا اور پہچانتا ہے، تم براہِ راست کامن سول کوڈ کو جاری کرنے سے عاجز وخائف ہو اسلئے کبھی حقوقِ نسوانی اور کبھی حقوقِ تعلیمی کی دہائی دےکر یکساں سول کوڈ تھوپ رہے ہو، اور اس دھوکے میں پڑے ہوئے ہو کہ عدالت کے نام پر تم دھوکے دیتے چلے جاؤگے، اور زرخرید گوگویوں کے قلم سے مسلمانوں پر فیصلے مسلّط کرتے چلے جاؤگے، اور مسلمانانِ ہند عدالتی فیصلوں کی آرتی اتاریں گے!!!
منو اپنے وقت کی سپریم کورٹ کا برہمن جج تھا، اس نے انسانوں کی تقسیم کا قانون بنایا تھا، اور چار وَرْنوں کو بھارت کے سمویدھان کا حصہ بنایا تھا، اور منوسمرتی میں شودروں کو اچھوت بنانے کا کاریہ کیا تھا، لیکن اُس دور میں اور اِس دور سب سے بڑا فرق یہ ہےکہ اُسوقت برہمنوں کا شکار بےکتاب دلت تھے، لیکن اِسوقت برہمنوں کے سامنے مسلمان اہلِ کتاب ہیں.
اب کہ یہ لڑائی ایمانیت اور غیرت وحمیّت کی ہے، فرد کی آزادی کی ہے، اور یہ تمام راستے کھلے میدان پر مُنتَج ہوتے ہیں اور سڑکوں سے ہوکر گزرتے ہیں، چنانچہ ہر جماعت کے افراد اپنے ذمہ داران کے حکم پر نکلنے کا ذہن بنائیں اور اپنے رہبروں کے میدان میں اترنے کو یقینی بنائیں، اور خدانخواستہ انہیں جیلوں سے خوف ہے تو انہیں گھر پر آرام کے لئے بٹھائیں اور اپنی جماعت کے باحمیت طبقے کو رہبری کا ذمہ دے دیں.
سربکف سربلند
اہلِ ہند اہلِ ہند
*۱۹فروری۲۰۲۲*
Post a Comment