’بصیرت کی بے حجابی‘---ودود ساجد

’بصیرت کی بے حجابی‘---
ودود ساجد

      (آج کے انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل )

کرناٹک ہائی کورٹ  میں سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے‘ دیو دت کامت اور یوسف مچھالا نے بڑی خوبصورتی‘ جامعیت اور موثر انداز میں بحث کرکے اپنے دلائل کی عمارت کھڑی کردی تھی۔ بعد میں بنچ کے سامنے پیش آمدہ کئی واقعات نے اس عمارت کو کئی جھٹکے دئے۔ پٹیشن در پٹیشن داخل کرنے کا سلسلہ شروع ہواتو بحث طویل ہوتی چلی گئی۔

اب تک کل 11 پٹیشن سماعت کیلئے منظور ہوچکی ہیں۔ایڈوکیٹ رحمت اللہ کوتوال کے ذریعہ 8 فروری کو پٹیشن دائر کی گئی لیکن 17فروری تک اس کی کورٹ فیس محض 300 روپیہ جمع نہیں ہوئی تھی۔ایک پٹیشن کی فیس میں محض 20 روپیہ کم جمع ہوئے تھے۔ چیف جسٹس نے ایسی پٹیشن کو مسترد کرنے کی اور بھی کئی وجوہات بتائیں۔۔

 بعض مسلم طالبات کے وکیل ونود کلکرنی نے عدالت سے ایک عجیب وغریب راحت طلب کی۔انہوں نے کہا کہ مسلم طالبات کو جمعہ کے دن اور  رمضان میں اسکارف اور حجاب استعمال کرنے کی اجازت دیدی جائے۔۔

بعض ماہرین اسلامیات کاخیال ہے کہ مذہبی  پہلو  پر اصرار ہی زیادہ موزوں اور مفید رہے گا۔ لیکن ماہرین قانون کا خیال ہے کہ مذہبی عنصر کا ذکر نہ کرکے اقلیتوں کے حقوق کیلئے دستور کے سب سے مضبوط آرٹیکل 25  اور اس کی ذیلی شقوں کے تحت حاصل اختیار اور آزادی کے پہلو ئوں پر ہی اصرار کافی رہتا۔۔

سپریم کورٹ کے معروف وکیل اسد علوی کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر مذکورہ مطالبہ ہی غلط ہے۔جو بچی حجاب پہنتی ہے اس کو تو ہر روز پہننا ہے۔ان کا خیال ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے عبوری حکم میں ممانعت کرکے درست نہیں کیا۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ امتحانات تک کے دوران ’ڈریس کوڈ‘ میں نرمی کردی جاتی ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ آخر کسی کے حجاب پہننے سے سوسائٹی کا کیا نقصان ہے؟ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس مقدمہ کو غیر فرقہ وارانہ بنیادوں پر اور جمہوری فریم میں ہی رہ کر لڑنا چاہئے۔

معروف سینئر وکیل روی کمار ورما نے عدالت سے پوچھا کہ جب ایک سکھ ایم پی پگڑی باندھ کرپارلیمنٹ میں داخل ہوسکتا ہے تو ایک مسلم طالبہ سرپر اسکارف باندھ کر کلاس میں کیوں داخل نہیں ہوسکتی۔۔ معروف سینئر وکیل یوسف مچھالا نے عدالت سے کہا کہ کیا حجاب سے روک کر حجاب اور تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو کہا جارہا ہے؟اس سے پہلے سنجے ہیگڑے نے عدالت سے کہا تھا کہ سکھوں کو کرپان رکھ کر پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔انہوں نے پوچھا تھا کہ حجاب سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے جبکہ کرپان کا اگر استعمال کیا جائے تو وہ کم نقصان دہ نہیں ہے۔

17فروری کو پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا ایک خط (جو انہوں نے بظاہر بورڈ کے ممبران کو لکھا تھا) منظر عام پر آگیا۔انقلاب کی لکھنئو ٹیم کو بورڈ کے ذرائع نے بتایا تھا کہ یہ خط برائے اشاعت نہیں ہے لیکن خود بورڈ سے ہی وابستہ کئی افراد نے اسے پہلے ہی سوشل میڈیا پرعام کردیا تھا۔لیکن اس خط کے نکات بُرے نہیں تھے۔میرا خیال ہے کہ اگر یہ خط عمومی ہی ہوتا اور بہت پہلے آجاتا تو اس کا ایک اچھا پیغام جاتا۔

اس خط میں لکھا تھا:  خواتین کے حجاب کا مسئلہ ایک چنگاری کی طرح کرناٹک کے ایک شہر سے اٹھا اور بہت جلد آگ بن کر پورے ملک میں پھیل گیا۔اب صورتحال بہت ہی نازک ہے۔ایک طرف پردہ شرعاً واجب ہے‘ ہم اس سے دستبردار نہیں ہوسکتے اور دوسری طرف فرقہ پرستوں نے اس کو مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کیلئے ایک عنوان بنالیا ہے اور نوجوان طلبہ وطالبات اس سے متاثر ہورہے ہیں۔

اس خط میں مزید جو لکھا تھا اس کا مفہوم یہ تھا کہ ایسی صورت حال میں بورڈ کی لیگل کمیٹی اورعاملہ کے چند ارکان کی میٹنگ میں یہ طے پایا کہ اس مسئلہ کو سڑک پر لانے کی بجائے قانونی طریقہ کار اور گفت وشنید کے ذریعہ حل کیا جائے۔ اس خط میں اس اندیشہ کا بھی اظہار کیا گیا تھا کہ کہیں یہ مسئلہ بابری مسجد   (کے مسئلہ)  کی نوعیت اختیار نہ کرلے اس لئے اس مسئلہ پر بورڈ کے ذمہ داران احتجاجی ریلیوں اور ٹی وی بحث ومباحثہ میں شریک نہ ہوں اور جو فریق کرناٹک ہائی کورٹ میں لڑ  رہے ہیں ان کے ساتھ مل کر پیروی کی جائے اور ضرورت پڑے تو سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔

سوال یہی ہے کہ اس مسئلہ کو سڑکوں پر لایا ہی کیوں گیا؟۔کرناٹک کے بہت سے ذمہ دارعلماء اور دانشوروں نے   بتایا ہے کہ یہ مسئلہ ابتداءً  جن پانچ  بچیوں سے شروع ہوا تھا انہی بچیوں کے ماں باپ اور اسکول انتظامیہ کے ذمہ داروں کے درمیان گفتگو کے بعد یہ مسئلہ حل بھی ہوگیا تھا۔لیکن ایک ’ناکام‘ سیاسی گروہ نے اس مسئلہ کو نئے سرے سے طول دیا۔ہمیں فی الحال اس سیاسی گروہ پر کوئی مزید تبصرہ نہیں کرنا ہے۔

ہماری تشویش دوسری ہے۔مسئلہ اب عدالت میں ہے۔ہائیکورٹ سے امید ہے کہ دوتین روز کی مزید بحث کے بعدکوئی فیصلہ سامنے آجائے گا۔حجاب کے حق میں فیصلہ نہ ہوا تو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہوگا۔لیکن اس قضیہ کے جو  دوسرے اثرات ہیں وہ بہت تشویشناک ہیں۔اس مسئلہ پر  پُرجوش نوجوانوں کے اشتعال انگیز اور قابل اعتراض تبصرے دیکھ کرکسی ’انہونی‘  کا اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے۔ٹی وی پر ہذیانی بحثیں جاری ہیں۔خود مسلمانوں کی طرف سے جو لوگ بحث میں شریک ہورہے ہیں ان میں سے زیادہ تر اشتعال میں آرہے ہیں۔

 حجا ب کے حق میں بڑی تعدادمیں ہندو دانشوراور خواتین کے حقوق کی علم بردار تنظیمیں بھی سامنے آرہی ہیں۔پوری دنیا میں غصہ کا اظہار کیا جارہا ہے۔کویت کی پارلیمنٹ میں بھی اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا گیا۔ بحرین کی پارلیمنٹ میں بھی قرارداد پیش کی گئی ۔ لیکن یہاں سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی برپا کیا جارہا ہے اس سے معاملہ دوسرا رخ اختیار کر رہا ہے۔اس طوفان بدتمیزی کا ایک آدھ نمونہ نقل نہ بھی کیا جائے تب بھی سوشل میڈیا تو بھرا پڑا ہے۔

ایک یوٹیوب چینل کے عاقبت نا اندیش نوجوان عالم نے جو لکھا اس کے عواقب کا تصور کرکے ہی روح لرزتی ہے۔اس نے باقاعدہ ایک ’کولاج‘ اور ’تھمب نیل‘ بنایا جس میں جلی حروف میں لکھا:  حجاب پر عدالت کا ظلم ’’چیف...سنگھیوں کا غلام نکلا۔‘‘  میں نے چیف کے بعد آنے والا لفظ عمداً نہیں لکھا۔لیکن سوشل میڈیا پر تو یہ موجود ہے۔ یہ سب سے کم درجہ کی بات ہے جو ہم نے نقل کی ہے۔

سوال یہ ہے کہ پھر عدالت سے رجوع ہی کیوں کیا گیا؟ میری رائے یہ ہے کہ اس سلسلہ میں بہتر ہوتا کہ حکومت سے رجوع کیا جاتا۔شرپسندوں کو تو موقع چاہئے‘ دانش مندی اسی میں ہے کہ ہر ممکن کوشش کی جائے کہ انہیں موقع ہی نہ ملے۔لیکن ایسے تبصرے یوں ہی ہوا میں نہیں اُڑ جائیں گے۔ان سب کو کہیں جمع بھی کیا جارہا ہوگا۔آج نہیں تو کل ان کی بنیاد پر کوئی افتاد بھی آسکتی ہے۔ایسے برے وقت سے بچنا چاہئے۔

کرناٹک ہائی کورٹ نے حکومت کے وکیل (ایڈوکیٹ جنرل) سے جو سوالات کئے ان کا وہ کوئی مسکت جواب نہیں دے سکے۔مثال کے طورپر چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر آپ کے مطابق یہ مان بھی لیاجائے کہ حجاب لازمی مذہبی شعائر میں سے نہیں ہے تو کیا حجاب سے روکنا آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟ کرناٹک حکومت کے باوثوق ذرائع سے جواطلاعات آرہی ہیں ان کی رو سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت پھنس گئی ہے اور وہ اس کا عدالت سے باہر کوئی حل تلاش کررہی ہے۔ممکن ہے کہ وہ اس حکمنامہ کے الفاظ میں بھی تبدیلی کردے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔

اس سلسلہ میں ان اسکولوں اور کالجوں کی کمیٹیوں سے بھی بڑی غلطی ہوئی ہے جنہوں نے یونیفارم میں تبدیلی کی ہے۔ضابطہ کے مطابق یونیفارم میں تبدیلی کیلئے سرپرستوں کوایک سال پہلے نوٹس جاری کرنا ہوتا ہے۔لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔اسی اشو پر اسکولوں کو گھیرا جاسکتا تھا۔اسکولوں اور کالجوں کی کمیٹیوں اورپیرنٹ ٹیچر ایسوسی ایشن سے رابطہ کیا جانا چاہئے تھا۔

معاملہ اتنا خراب ہوگیا کہ خود کرناٹک کے اقلیتی تعلیمی اداروں تک نے حجاب پر پابندی عاید کردی۔ پرائمری اردو اسکولوں نے‘جہاں سو فیصد مسلم طالبات زیر تعلیم ہیں‘ بچیوں کے حجاب اورٹیچروں کے برقعہ پر پابندی لگادی۔ایک یونیورسٹی کی انگلش کی پروفیسر نے برقعہ کو ترجیح دیتے ہوئے نوکری سے ہی استعفی دیدیا۔حجاب لگاکر آنے والی بچیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جارہی ہیں۔

ایک ’بہت اونچی جگہ‘ پر متمکن عہدیدار نے مجھ سے پوچھا تھا کہ اب جبکہ خود عرب دنیا میں ہی مسلم خواتین حجاب کو چھوڑ کر آگے بڑھ رہی ہیں تو کیا ہندوستان میں حجاب پر زور دینا درست ہے؟  میں نے انہیں ہندی میں ایک تفصیلی جواب لکھ کر بھیجا جس میں بتایا کہ شرعی احکامات کیلئے سب سے اہم ماخذ ومصدر قرآن پاک اور اللہ کے رسول صلی الله عليه وسلم کی تعلیمات اور ان کی حیات مبارکہ ہے۔عرب دنیا ہندوستانی مسلمانوں کیلئے رول ماڈل نہیں ہوسکتی۔لاکھوں مسلمان بہت سے احکام پر عمل نہیں کرتے لیکن ان میں سے کوئی اگر کسی ایک مذہبی فریضہ پر عمل کر نا چاہتا ہے تو آپ اسے یہ کہہ کر نہیں روک سکتے کہ لاکھوں مسلمان اس مذہبی فریضہ پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔

معلوم ہوا ہے کہ اعلی حکام نے میرے اس موقف کی تائید کی ہے۔ ایک مرکزی وزیر نے بھی اس سلسلہ میں بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف تو ہمارے وزیر اعظم بیٹی بچائو‘ بیٹی پڑھائو کا نعرہ لگاتے ہیں اور دوسری طرف ہماری ریاستی حکومت میں انہیں حجاب لگاکر اسکول اور کالج آنے سے روکا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی جب اس اشو کو اٹھایا گیا تو بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔یہاں تک کہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کیلئے مشہور کرناٹک کے ممبر پارلیمنٹ تیجسوی سوریا بھی خاموش رہے۔انڈین ایکسپریس نے لکھا ہے کہ تری پورہ میں بی جے پی اور حکومت میں بھی اس پر بے چینی پائی جاتی ہے۔

بہار میں بی جے پی کی حمایت سے حکمرانی کرنے والے وزیر اعلی نتیش کمار بھی اس پر ناگواری کا اظہار کرچکے ہیں۔ایک اور مرکزی وزیر کے مطابق بی جے پی کی مرکزی قیادت بہت سنجیدگی سے غور کر رہی ہے کہ اس اشو کو کیسے حل کیا جائے۔بی جے پی کے ایک دوسرے لیڈر نے کہا کہ مرکزی قیادت کو یہ بات بری لگتی ہے کہ کوئی ریاستی حکومت کسی اشو کو اتنا بڑھائے اور پھر اسے مرکزی قیادت کی گود میں پھینک دے۔مدھیہ پردیش میں بھی وزیر تعلیم اندر سنگھ پرمار کے بیان کو وزیر اعلی شوراج سنگھ چوہان اور ان سے بھی زیادہ سخت گیر وزیر نروتم مشرا نے پسند نہیں کیا ہے۔

ہمیں ان سطور کے ذریعہ بی جے پی یا حجاب مخالف شرپسندوں کا دفاع مقصود نہیں ہے۔ہماری فکر کا موضوع یہ ہے کہ مسلمانوں کے جوشیلے حلقے اس اشو کو کہاں لے جارہے ہیں۔مسلمانوں کو یقینی طور پر ایک نہیں ڈھیروں مسائل در پیش ہیں۔شرپسندوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔بی جے پی یا حکومت اب تشویش میں مبتلا ہو تو ہو لیکن یہ سب زہر تو انہی کا پھیلایا ہوا ہے۔یہ معاشرہ اتنا زہریلا ہوگیا ہے کہ مغربی اتر پردیش میں ایسے بھی لوگ ہیں جو کھلے عام میڈیا سے کہہ رہے ہیں کہ ہم یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کی واپسی اس لئے چاہتے ہیں کہ ہمیں مسلمانوں سے الرجی ہے۔کیا مسلمانوں کو اس تبدیل شدہ ماحول کے مطابق اپنی حکمت عملی از سرنو ترتیب نہیں دینی چاہئے؟

کوئی تبصرے نہیں