تاریخ کاسبق ـ ودودساجد

 تاریخ کا سبق---

ودود ساجد


    (روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل) 


آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت ’فرماتے‘ ہیں کہ’’تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والے کبھی دیش بھکت نہیں ہوسکتے‘‘۔یہ جملہ ان کی ایک حالیہ تقریر کا ابتدائی حصہ ہے۔یہ تقریر انہوں نے اپنے ہماچل پردیش کے قیام کے دوران’کانگڑہ‘ میں کچھ ہندو دانشوروں سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کی۔انہوں نے مزید کہا کہ’’ہندوستان کی تاریخ فخر ومباہات سے بھری پڑی ہے‘کہیں کہیں غلطیاں بھی ہوئی ہیں‘ملک کی نئی نسل کے سامنے پوری تاریخ رکھی جانی چاہئے تاکہ وہ اپنی قابل افتخارتاریخ پر فخر کرسکیں اورجہاں غلطیاں ہوئی ہیں وہاں سے سیکھ سکیں۔‘‘


ان کی اس تقریر پر اور خاص طور پر اس تقریر کے ابتدائی جملہ پر آپ کو ہنسی آئی ہوگی؟۔مجھے بھی آئی تھی۔اب ہنسی کے سوا اور کوئی ردعمل ظاہر کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔یہ بھی غنیمت ہے۔اگر آپ کو ہنسی آرہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی آپ کچھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔20 ستمبر 2014 کو ’فرسٹ پوسٹ‘ نے لکھا تھا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس دونوں اس امر سے انکار کرتے رہے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر تاریخ کو از سرنو لکھنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ آخر کار یہ کوشش اسکولی نصاب میں بھی گڑھی ہوئی تاریخ کو داخل کرنے پر منتج ہوگی۔مودی حکومت پرآر ایس ایس کے اثر ونفوذ کی بات اس قدر عام ہوگئی کہ اس کے چیف ترجمان منموہن ویدیہ کو یہ واضح کرنا پڑا کہ آر ایس ایس‘ حکومت کو کنٹرول نہیں کر رہی ہے۔‘


فرسٹ پوسٹ کی اس تحریر کو آج سات سال کے بعد سامنے رکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کا موہوم سا خوف آج ٹھوس حقیقت میں بدل رہا ہے۔22دسمبر 2021کو آپ نے ’انقلاب‘ کی پہلی خبر میں پڑھ لیا ہوگا کہ ملک میں تعلیمی نصاب کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کا خطرناک منصوبہ تیار ہورہا ہے۔پارلیمانی کمیٹی نے اپنی سفارشات میں ویدوں اور گیتا کو جگہ دی ہے اوراسلام اور مسلمانوں کو نظر انداز کردیا ہے۔’انڈین ہسٹری کانگریس‘ نے ان سفارشات پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔بہت سے دانشوروں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ آر ایس ایس ہندوستان کی تاریخ کو پلٹنا چاہتی ہے۔ آر ایس ایس کا قیام 27 ستمبر 1925 کو ناگپور میں عمل میں آیا تھا۔100سال پورے ہونے میں چار سال باقی ہیں۔اس وقت تک آر ایس ایس کچھ ’بڑا نشانہ‘ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ہزاروں سال پرانے بے ربط دیومالائی قصے کہانیوں اورچار لاکھ سے زائد  (خود ساختہ) آیتوں پرمشتمل ’پرانوں‘ کی تعداد 18 سنتے تھے لیکن’تاریخ‘ پر از سرنوکام کرنے والی آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم ’اکھل بھارتیہ اتہاس سنکلن یوجنا‘کا کہنا ہے کہ یہ تعداد غلط ہے اور یہ کہ ’پرانوں‘کی اصل تعداد 106ہے۔


اندازہ لگائیے کہ کتنے بڑے پیمانے پر کام ہورہا ہے۔ مذکورہ تنظیم نے یہ باقی 88’پران‘ بھی حاصل کرلئے ہیں۔دعوی کیا گیا ہے کہ یہ پران ہندوستان اور دوسرے ملکوں کی مختلف لائبریریوں‘یونیورسٹیوں اور مختلف افراد کے ذاتی ذخیروں سے حاصل کئے گئے ہیں۔کون جانے کہ یہ تعدادآگے چل کر212ہوجائے۔آر ایس ایس نے اپنی صدسالہ تقریبات کے انعقاد سے پہلے 670اضلاع اور600 قبائلی طبقات کی تاریخ کو یکجا کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ نصاب تعلیم میں تبدیلی کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب اٹل بہاری باجپائی کی حکومت میں مرلی منوہر جوشی کو فروغ انسانی وسائل کا وزیر بنایا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں بنیادی کام انہوں نے ہی کیا تھا۔انہوں نے سختی کے ساتھ اصلاحات کے نفاذاور از سرنو تاریخ کی تدوین کی کوشش کی تھی۔انہوں نے این سی ای آر ٹی کی نصابی کتابوں میں تبدیلی کربھی دی تھی۔لیکن انہیں غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ان ریاستوں نے این سی ای آر ٹی کی یہ کتابیں لینے سے ہی منع کردیا تھا۔مر لی منوہر جوشی کی ان کوششوں کے پس پشت دراصل دینا ناتھ بترا کا دماغ اور ہاتھ تھا جو آر ایس ایس کی ایک اور ذیلی تنظیم ’شکشا سنسکرتی اتھان نیاس‘ کے کلیدی رکن ہیں۔ایسے میں آر ایس ایس کیسے کہہ سکتی ہے کہ وہ ’حکومت کو کنٹرول نہیں کرتی‘۔مودی حکومت (اول) میں جب اسمرتی ایرانی نے فروغ انسانی وسائل کی وزارت سنبھالی تو انہوں نے بھی واضح طورپر کہہ دیا تھاکہ نصاب تعلیم میں ’قوم پرستی‘ پر ابھارنے اور اسے فروغ دینے والے عناصر شامل کئے جائیں گے۔اس وقت بھی دینا ناتھ بترا منظر نامہ پر آئے تھے۔


حیرت ہے کہ تاریخ کے ساتھ کھلی چھیڑ چھاڑ کے حامی موہن بھاگوت کہتے ہیں کہ تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والے کبھی دیش بھکت نہیں ہوسکتے۔مجھے یاد آتا ہے کہ اٹل بہاری باجپائی کی حکومت میں وزیر فروغ انسانی وسائل مرلی منوہر جوشی نے ایک انٹرویو کے دوران مجھ سے کہا تھا کہ خود ’بھارت کے ہندو نہیں چاہتے کہ بھارت ہندو راشٹر بنے‘۔لیکن اب آپ دیکھئے کہ کیا ہورہا ہے۔2014میں بی جے پی کے جس اجلاس میں امت شاہ کو پارٹی کا صدر منتخب کیا گیا اس میں انہوں نے کہا تھا: ’اپنے نظریات کو عوام کے سامنے لانے کا اس سے بہتر کوئی اور موقع نہیں ملے گا۔ہمیں پنڈت دین دیال اپادھیائے کے نظریات کو لوگوں کے سامنے پیگش کرنے کی ضرورت ہے۔ورنہ ہم زیادہ دنوں تک اقتدار میں نہیں رہ سکتے‘۔اب اندازہ ہورہا ہے کہ وہ اقتدار میں رہنے کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق آر ایس ایس نے اضلاع کی سطح پر’تاریخ نویسوں‘ کونئے سرے سے اپنے اپنے ضلع کی تاریخ لکھنے پر لگادیا ہے۔آر ایس ایس کے منصوبوں کو شمار کرانے کیلئے کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔چند پیراگراف کے اس مضمون میں ان کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔لیکن متعدد جائزوں اور خود آر ایس ایس کے نظریہ سازوں کے تبصروں کے مطالعہ سے آر ایس ایس کا ایک’درد‘ واضح ہوکر سامنے آتا ہے۔اسے تکلیف ہے کہ جدوجہد آزادی کی تاریخ مسلمانوں اور ان ہندئوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہے جن کا آر ایس ایس یا اس کے بنیادگذاروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔لہذا اب وہ کہتی ہے کہ مورخین نے جان بوجھ کراس کے’ اسیران انڈومان‘ کو نظر انداز کردیااور اب ان کا ذکر نمایاں طورپر کیا جائے گا۔وہ شواجی‘ مہارانا پرتاپ‘ چانکیہ اور چندرگپت موریہ کو بھی نظرانداز کرنے کی شکایت کرتے ہیں۔


آج ان کے ہاتھ میں طاقت ہے تو قلم بھی ان کا ہے اور قلم کار بھی ان کے ہیں۔اب ایک سوال مسلمانوں سے عمومی طورپر ہے۔قرطاس وقلم تو آپ کے پاس بھی ہیں۔کیا آپ نے بھی کوئی منصوبہ بنایا ہے؟نہیں بنایا ہے تو بنائیے۔بہت دیر ہونے سے پہلے بنائیے۔ اسکولوں اور کالجوں سے اردو ختم ہوتی جارہی ہے۔حد تو یہ ہے کہ اب گھروں سے بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔پچھلے دنوں لکھنئو کے روزنامہ انقلاب کے دفتر میں جن زعمائے لکھنئو سے ملاقات کا موقع ملا ان میں سے زیادہ تر اسی امر پر متفکر تھے کہ بیشتر اردو گھرانوں میں بھی نئی نسلیں اردو نہیں پڑھ رہی ہیں۔


اس سلسلہ میں میرا گزشتہ 14سال کاتجربہ بہت تلخ اور سنگین ہے۔انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں مفت تعلیمی وتربیتی پروگراموں کیلئے پرانی دلی کے سینکڑوں بچے اور بچیوں سے انٹرایکشن کے دوران جو تصویر سامنے آئی وہ بہت ڈرائونی ہے۔بچے پوچھتے تھے کہ سر یہاں ہونے والے پروگراموں کے بارے میں کہاں سے پتہ چلے گا تو میں کہتا تھا کہ اردو اخباروں سے۔تو بیشتر کا جواب ہوتا تھا کہ سرہمیں اردو نہیں آتی۔بہت سے تو یہ بھی بتاتے تھے کہ ہمارے گھر میں اردو کا اخبار نہیں آتا۔میں تقریباً ہر بچی سے پوچھتا تھا کہ قرآن پڑھا ہے؟۔جواب سننے کیلئے سکت چاہئے‘ اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں‘بیشتر کا جواب ہوتا تھا کہ نہیں سر وقت نہیں ملا۔ جب یہ جواب نوجوان بچیوں کی طرف سے آتا تھا تو روح لرزجاتی تھی۔یہ ہم کیسی نسل تیار کر رہے ہیں جو دین بیزارنسلوں کوپیدا کرنے کا ذریعہ بنے گی۔کوئی کالج (طلبہ کی عدم دلچسپی کے سبب) اردو یا عربی زبان کا شعبہ ختم کرنے کا اعلان کردے تو بیانات کی جھڑی لگ جاتی ہے۔اگر گھروں کے ماحول میں بولی جانے والی زبان میں بچوں کو مذہبی تعلیمات اور اپنی زریں تاریخ سے آراستہ نہیں کیا گیا تواس امر کی کیا ضمانت ہے کہ وہ بڑے ہوکرہندی یا انگریزی میں مذہب اور تاریخ پڑھیں گے؟ہماری تاریخ اور ہماری مذہبی معلومات کا زیادہ بڑا ذخیرہ اردوزبان میں ہے۔بر صغیر میں اور خاص طورپر شمالی ہندوستان میں اتنی بری حالت میں بھی گھروں کا ماحول یہ ہے کہ اگرکوئی بات اردو میں سمجھائی جائے تو جلدی سمجھ میں آجاتی ہے۔


ایک سوال ان قائدین سے بھی ہے جو مسلمانوں کے مسائل پر اپنے بیانات اردو اخباروں میں چھپواتے ہیں۔کل جب اردو داں نسل ختم ہوجائے گی تو یہ اخبار کون پڑھے گا؟اردواخبار نہیں چھپیں گے تو آپ کے مسائل پر آواز کون اٹھائے گا؟ اور سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ آرایس ایس کے ساتھ لڑنے کی بات کرنے والے کیا اسی طرح لڑکر کامیاب ہونا چاہتے ہیں؟شور مچانے کی بجائے یہ جائزہ لینے کا وقت ہے۔ان کی مضبوط ’دانشورانہ‘ تیاری کا مقابلہ غیر دانشمندانہ غفلت سے نہیں کیا جاسکتا۔

کوئی تبصرے نہیں