ہندوکاسب سےبڑاپنڈت

 *ہندؤں کا سب سے بڑا پنڈت*


*”وید“* ہندو دھرم کی سب سے مقدس کتاب ہے۔ وید چار ہیں۔ اس وقت دنیا میں ویدوں کا سب سے بڑا عالم پنڈت راجندر پرشاد شرما ہیں۔ وید پر انہیں بھارت میں اتھارٹی مانا جاتا ہے۔ پہلے وہ ادے پور یونیورسٹی کے سنسکرت کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ تھے، اب انٹرنیشنل یونیورسٹی آف سنسکرت جے پور کے وی سی ہیں۔

پنڈت صاحب بڑے سادہ مزاج کے آدمی ہیں، بہت کم کھاتے، بہت کم سوتے، مسلسل منتھن (مراقبہ) کرتے اور دھیان میں وقت گزارتے یا پڑھتے رہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ ان کے پاس مخمل کا ایک تھیلا ہوتا ہے، جس میں ایک کتاب لپٹی رہتی ہے، وہ اس کتاب کو بہت آدر (احترام) سے رکھتے ہیں، ہمیشہ اونچی سے اونچی جگہ اسے رکھتے، اس کو پڑھتے تو پڑھنے سے پہلے اسے چومتے اور سر جھکاتے ہیں۔ 

پنڈت صاحب کے ایک خاص شاگرد ”امیش کمار“ (نومسلم) کا کہنا ہے کہ میں نے ایک دن موقع پا کر ان سے معلوم کیا کہ پنڈت جی یہ کون سا گرنتھ ہے، جس کا آپ ویدوں سے بھی زیادہ آدر کرتے ہیں اور اتنے ادب سے اس کو پڑھتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ قرآن شریف ہے۔ میں نے کہا آپ بھارت کے اتنے مہان ہندو دھارمک گرو ہو کر قرآن شریف کیوں پڑھتے رہتے ہیں؟ انہوں نے کہا بیٹا تم ستیہ کے سچے راہی ہو، اس لئے تم سے بالکل سچ کہتا ہوں، ویدوں نے بہت جگہ کہا ہے کہ قرآن شریف آجانے کے بعد اس انتم گرنتھ کو پڑھیں، یہ سناتن دھرم کا انتم اور پورنتم (آخری اور مکمل) گرنتھ ہے۔ یہ کہہ کر بہت ہی آستھا سے انہوں نے قرآن شریف سر پر رکھ لیا۔

میں نے گرو جی سے کہا کہ گروجی! ہمارے دھرم گرو ہندوﺅں کو کیوں نہیں بتاتے، پھر تو سارا ہندو مسلم جھگڑا ہی ختم ہو جائے گا؟ وہ بولے میرے پیارے بیٹے اب دھرم کہاں رہا، دھرم کے چولے میں لوگ کاروبا کر رہے ہیں، یہ ختم ہو جائے گا، مگر صحیح وہی ہے جو میں نے تمہیں بتایا، میں نے چاہا تھا کہ اس پر ایک کتاب لکھ دوں اور دیش میں ایک آواز لگاﺅں، مگر مجھے بہت سے لوگوں کی طرف سے جو بڑے بڑے مٹھوں کی گدیوں پر براجمان ہیں، دھمکیاں ملنے لگیں، بس میں نے بھی ہمت ہار دی۔

میں نے پوچھا گروجی آپ قرآن شریف تک کس طرح پہنچے؟ انہوں نے بتایا کہ میں ادے پور یونیورسٹی میں کلاس لے کر کچھ اسٹوڈنٹس کے ساتھ گھر آرہا تھا، راستہ میں ایک مسلمان کے گھر سے قرآن شریف کی آواز آرہی تھی۔ میرا دل اور میری اننت آتما (روح) اس آواز کی طرف بہت کھنچی، میں نے اپنے ایک اسٹوڈنٹ سے کہا کہ دیکھو، گھر کے دروازے پر جاکر گھر والوں سے پوچھو کہ کون سا گاین گایا جا رہا ہے، اس نے جا کر گھنٹی بجائی، گھر سے ایک چودہ سال کا بچہ نکلا، اس سے معلوم کیا کہ تمہارے گھر میں کون سا گاین گایا جارہا ہے، اس نے غصہ میں کہا گانا کیوں گایا جاتا؟ گانا بجانا تو ہمارے یہاں اسلام میں بڑا گناہ ہے، یہ تو قرآن شریف ٹیپ ریکارڈ میں ہے اور یہ حرم مکہ کے امام صاحب کی آواز میں ہے، اس نے آکر مجھے بتایا تو میں نے کہا کہ اگر یہ قرآن شریف ہے تو سچی ایشوریہ واڑی (یعنی آسمانی وحی) ہے، وہ بولے یہ آپ کیسے کہہ رہے ہیں؟

 میں نے کہا کہ ویدوں کو سن کر اور پاٹھ کرکے جیسے دل سے گندگی اور پاپ کے بادل سے چھٹتے ہیں، اس سے سو گنا زیادہ صرف اِس کی آواز سے دل صاف ہوا جا رہا ہے، اس کے بعد میں نے قرآن شریف تلاوت کرنا شروع کیا اور بہت سے مسلمانوں سے قرآن شریف مانگا، ایک سال کے بعد جے پور جا کر مجھے قرآن شریف کا ہندی انواد (ترجمہ) مل سکا۔

یہ ہے ہندوﺅں کے سب سے بڑے عالم کا حال اور ہم انہی کے گانے سن کر دل و دماغ اور قلب و روح کو آلودہ کرتے رہتے ہیں۔

*(بحوالہ: ماہنامہ ارمغان پھلت بھارت)*

کوئی تبصرے نہیں