کرسمس ڈےاورکرسمس پارٹی میں شرکت کاحکم
*⭕کرسمس ڈے اور کرسمس پارٹی میں شرکت کا حکم*
🖊️ حضرت اقدس *مفتی اسماعیل کچھولوی صاحب* مدظلہ العالی
( شیخ الحدیث و صدر مفتی جامعہ حسینیہ راندیر سورت گجرات)
*سوال:*
(۱) کرسمس کسے کہتے ہیں ؟ یہ مذہبی تقریب ہے یا ملکی تقریب ہے؟ یا سالانہ تقریب ہے؟ شریعت مطہرہ میں اس کی کیا حیثیت ہے؟
(۲) کرسمس ڈے کے دن دیکھا جاتا ہے کہ کچھ مسلمان برادر بھی اپنے گھروں کو سجاتے ہیں ، جیسا کہ عیسائی اپنے گھروں کو خاص کر کرسمس ٹری ، لائٹیں اور گولے وغیرہ سے سجاتے ہیں ، اور کرسمس کی خوشی مناتے ہیں ، تحفے تحائف تقسیم کئے جاتے ہیں ، نیز ان دنوں کرسمس پارٹی کے نام سے دفتروں ، اسکولوں اور کارخانوں میں دعوت رکھی جاتی ہے ، جس میں انواع و اقسام کے پر تکلف کھانے پینے کی اشیاء، شراب، ناچ،گانے وغیرہ ہوتے ہیں ، جس میں مرداور عورتیں ایک ہو کر خوشیاں مناتے ہیں اور حصہ لیتے ہیں ، اسکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں اسی نام سے پارٹی کرتے ہیں اور اپنے مذہبی رواج کو فروغ دیتے ہیں ، کچھ اسکولوں میں صرف کھانا پینا ہوتا ہے اور کچھ اسکولوں میں شراب کے علاوہ ہر طرح کے خرافات ہوتے یں ، حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ حضرت مریم کا ڈراما کیا جاتا ہے ، جس میں مسلمان لڑکے لڑکیاں بھی حصہ لیتے ہیں ، اسی طرح اور بھی عیسائی مذہب کے رواج ہوتے ہیں ۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ
۱… ان حالات میں جبکہ مذہبی اور قومی رسموں کو فروغ دیا جا رہا ہو اور اسکی اہمیت مسلمانوں اور مسلمانوں کے بچوں کے دلوں میں پیوست کی جا رہی ہو (اگر چہ اس میں دوسرے خرافات نہ بھی ہوں ) پھر بھی ان پارٹیوں میں شرکت کرنا مسلمان اور ان کے بچوں کے لئے جائز ہے یا نہیں ؟
۲… ایسی اسکول جسکے ذمہ دار مسلمان اکثریت میں ہوں اور اس رسم کو بند کرانے پر قادر ہوں ، ایسی اسکول میں مسلمان منتظمین کاپارٹی کی اجازت دینا کیسا ہے؟ اور ان پارٹیوں میں مسلمان بچے بچیوں کا شرکت کرنا اور حصہ لینا کیسا ہے؟
۳… مخصوص شرائط کے ساتھ کرسمس پارٹی کی اگر اجازت دیدی جائے تو اس اجازت کو دلیل بنا کر عوام ہر طرح کی کرسمس پارٹی میں حصہ لینے کو جائز سمجھیں گے، اور حدود سے تجاوز کا پورا امکان ہونے کی وجہ سے مخصوص شرائط کے ساتھ کرسمس پارٹی میں حصہ لینے کی اجازت ہے یا نہیں ؟
*الجواب: حامداً و مصلیاً و مسلما*
ہر قوم و ملت میں کچھ خاص ایام عید و تقریب کے ہوتے ہیں ، اسی طرح کرسمس بھی عیسائیوں کی عید اور تقریب کا دن ہے، حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کی خوشی میں یہ دن منایا جاتا ہے، انسائکلو پیڈیا آف بریٹانیکا میں ہے: چوتھی صدی عیسوی میں اس کی ابتداء ہوئی اور رومن تہذیب سے یہ آئی ہے۔ (صفحہ: ۵؍۷۰۴) اور عیسائی تہذیب کی اشاعت، طبع کی سہولت اور غلبہ کی وجہ سے اس خالص مذہبی تقریب میں دوسرے خرافات کے ساتھ دوسری قوم میں بھی مقبول ہو کر ایک جشن کی صورت اختیار کر لی ہے، کچھ چیزیں اس میں ایسی ہیں جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے صرف عیاشی اور خواہش پرستی ہے۔
اسلام ایک کامل اور مکمل مذہب ہے، زندگی کے ہر گوشے اور موقعہ کے لئے اس میں مکمل رہنمائی موجود ہے، مسلمان اور غیر مسلمان کے ساتھ سلوک کرنے کے طریقوں کو اسلام نے مفصل طور پر بیان کیا ہے، آپ ﷺ کے صحابہ ؓ نے حبشہ میں قیام کر کے اور دوسرے ملکوں اور قوموں میں رہ کر علمی اور عملی رہنمائی فراہم کی ہے، دوسروں کی تہذیب اور اخلاق سے متاثر نہیں ہونا چاہئے بلکہ نیک عمل و اخلاق حسنہ سے دوسروں کو متاثر کرنا چاہئے، اس لئے کہ اسلامی تہذیب و تمدن دوسرے تمام مذاہب کے مقابلہ میں اعلیٰ و افضل ہے ، آج مسلمانوں کی بڑی تعداد دوسرے ملکوں میں اوردوسری اقوام کے درمیان رہ رہی ہے انہیں روزانہ کے معاملات میں ان سے سابقہ پڑتا ہے ، غیروں سے تعلقات میں تفصیل یہ ہے کہ :
1️⃣… اگر کوئی شخص اپنے مذہب کا تخصص و وقار باقی رکھتے ہوئے غیروں کے مذہبی رسم و رواج میں بالکل حصہ نہ لے اور ایسا کرنے سے اس کے مرتبہ اور مال میں نقصان آتا ہو تو بھی اس کو برداشت کرے تو یہ شخص دین کا مجاہد، متقی اور اللہ کا برگزیدہ بندہ اور سچا امتی کہلائے گا۔
2️⃣… اور جو مسلمان اس دن کو عظمت والا سمجھ کر ان کی موافقت میں عیسائیوں کی تقریب میں حصہ لیتا ہے اور خوشی مناتا ہے گھر کو سجاتا ہے، روشنی کرتا ہے یا انکے مذہبی رسم و رواج یں شرکت کرتا ہے تو فقہاء اس عمل کو کفریہ عمل گردانتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ شخص ایمان کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے، فتاویٰ بزازیہ میں ہے: مجوسیوں کی تقریب نیروز میں جانا اور ان کی اتباع کرنا کفر ہے۔
3️⃣… جو شخص ان کی تقریبات میں حصہ نہیں لیتا، اور ان کی تقریبات کی خوشی بھی دل میں محسوس نہیں کرتا، بلکہ دل سے اس سے نفرت کرتا ہے اور معاملات اور دنیوی فائدہ کی غرض سے یا نقصان یا تکلیف کے ڈر سے تحفہ تحائف یا مبارکبادی کے کارڈ بھیجتا ہے تو اس سے کفر تولازم نہیں آتا لیکن تشبہ ضرور ہے اس لئے اس سے بھی بچنا چاہئے اور چونکہ یہ مذہبی تقریب کا مسئلہ ہے اس لئے عدم جواز کو ترجیح دی جائیگی اور تعلقات برقرار رکھنے کے لئے تحفہ تحائف کی گنجائش ہے۔
مخصوص شرائط و حدود کی رعایت کے ساتھ پارٹی کی جائے تو اسے دوسرے لوگ جواز کی دلیل بنا کر ناجائز پارٹی کو بھی جائز سمجھنے لگیں گے جیسا کہ آج کل عوام کا یہی حال ہے تو اس صورت میں حدود کی رعایت کے ساتھ کی جانے والی پارٹی سے بھی روکا جائیگا، جیسا کہ قرآن پاک میں صحابہ کرام کو راعنا کے بجائے انظرنا کہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
نابالغ لڑکے لڑکیوں کو، اسکول اور مدرسہ اور گھر کے ماحول میں عیسائی اور دوسری تہذیبوں اور تمدنوں سے دور رکھا جائے تب ہی ان کے ایمان اور اعمال کی حفاظت ہو سکتی ہے، ورنہ مستقبل میں خطرہ ہے کہ مسلمان کہیں صرف نام کے مسلمان نہ رہ جائے ،اس لئے ہر وہ چیز جس میں عیسائیت یا عیسائی تہذیب کی جھلک ہو اس سے ہر مسلمان کو بچانا لازم اور ضروری ہے۔ فقط و اللہ تعالی اعلم
( *فتاویٰ دینیہ* جلد 5 صفحہ 131 تا 134)
Post a Comment