کم عمری کی شادی: ایک جائزہ

کم عمری کی شادی: ایک جائزہ

از: قاضی محمد فیاض عالم قاسمی
8080697348


ہندوستان میں شادی کے لیےلڑکی کی عمراٹھارہ سال ہوناضروری ہے اورلڑکے کی عمراکیس سال ہوناضروری ہے۔ یعنی اگراس  عمر سے پہلے ہی کوئی لڑکی  شادی کرلیتی ہے یا لڑکاشادی کرلیتاہے یاان کے ماں باپ کرادیتے ہیں، تو قانونی طورپریہ  اللیگل  ہے، اغوا،ریپ،وغیرہ کاکیس بن سکتاہے۔ بعض ممالک نے ۱۸،بعض نے ۱۷ اور کچھ ممالک نے ۱۶ سال کی  عمر کم از کم مقرر کی ہے ۔

کم سنی میں نکاح کو غیرقانونی قراردینے کی  وجہ:

(١)کم عمری کی شادی لڑکیوں کی صحت کے لئے نقصان دہ ہے ،کیوں کہ جسمانی نشو نما کی تکمیل اور تولید کی مناسب صلاحیت پیدا ہونے سے پہلے ہی ان کو ماں بننا پڑتا ہے،جس سے ان کی صحت پرمنفی اثر پڑتاہے۔

(٢) بچی کی عمر اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ اپنی دیکھ بھال  بھی صحیح طرح سے نہیں کرپاتی تو وہ بچے کی پرورش کیسے کرپائے گی ۔

(٣) زوجین کی معاشی حیثیت کمزور ہوتی ہے۔

 آئیے ہم اس کےمختلف زاویہ کا جائزہ لیتے ہیں:

 (١)پہلی بات یہ کہ  جسمانی نشونما سب لڑکو ں اور لڑکیوں میں یکساں نہیں ہوتی ،بلکہ موسمی حالات ،غذا،ماحول، خاندانی اثرات کے تحت  بلوغ کی عمر مختلف ہوتی ہے،جسمانی قوت اور ماں بننے کی صلاحیت  میں بھی فرق پڑتاہے ،اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ١۸/سال کی عمر کی ہر لڑ کی کے لئے ماں بننا نقصاندہ ہے ،اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ١۸/سال کے بعد ہر لڑکی میں  یقینی طور پر ایسی  صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ  ماں بننا ان کے لئے نقصاندہ نہ ہو،اس لئے ایک خاص عمر کی تعیین  سمجھ میں نہیں آتی،قانون فطرت کے مطابق  لڑکیوں کی اس صلاحیت کا اصل معیار  بلوغت ہی ہے ،کیوں کہ جب لڑکی  بالغ ہوجاتی ہیں تو ان کے اندر حاملہ بننے صلاحیت  بھی پیدا ہوجاتی ہے ۔

(٢) بچی کی عمر اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ اپنی دیکھ بھال  بھی صحیح طرح سے نہیں کرپاتی تو وہ بچے کی پرورش کیسے کرپائے گی، تو اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ  کا دستور ہے کہ وہ کسی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا کہ اس کو اٹھانہ سکے لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ:286) پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ اگربچی کی شادی  کم عمری میں نہ کی جائے تو کیا بیس ، یا پچیس سال کی عمر میں وہ اتنی سمجھ دار ہوجاتی ہےکہ بچے کی پرورش بہتر طورپر  کرسکے گی ؟۔ جب تک اسے حمل کی دشواریوں اور زچگی کی تکلیفوں کا سامنا نہیں ہوگا اور بچے کو دودھ پلانے کے دور سے نہیں گزرے گیی،وہ بچہ کی پرورش بہتر طریقہ سے کیسے کرسکے گی؟ اگر اس کا انحصارتجربہ اورسیکھنے  پرہے تو پھر یہ تجربہ اور سیکھنا کم عمری میں کیوں نہیں؟

(٣) زوجین کی معاشی حیثیت کمزور ہوتی ہے،یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہے،کیوں کہ فرمان خداہے نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ(الانعام:١٥١)ہم ہی تم کو رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی،ہر آنے والا مہمان اپنا رزق اپنے ساتھ لاتا ہے۔

کم عمری کی شادی  پر پابندی کے نقصانات

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت جب کبھی فطری قانون کے ساتھ چھیڑ خانی کی  گئی، تو اس کے غلط اثرات مرتب ہوئے ،جیسے  حلال کے دروازے بند ہوں گے تو حرام کے دروازے خودبخود کھلیں گے، کیونکہ انسانی خواہش اور ہارمونز کوبڑھنے سے آپ بیڑیاں ڈال کر نہیں روک سکتے۔ جب آپ ’’حلال‘‘ پر قانونی یا ’اخلاقی‘ بیڑیاں ڈالیں گے تو وہ ہارمونز حرام ذریعے سے خودبخود اپنا راستہ بنالیں گے اور کم سنی کی حرام کاری کے واقعات بکثرت ہوں گے کم عمری کی شادی پر پابندی کانتیجہ یہ ہےکہ بچیاں مانع حمل دوااستعمال کرکے یا آپریشن کے ذریعہ بچہ ضائع کرواتی ہیں ،بغیر شادی کے مائیں بن کر  ناجائز اولا د جَن رہی ہیں، باتھ روم سنسان جگہوں اور گٹرو ں  میں نوزائدہ بچے ملنے کی اصل  وجہ یہی ہے۔ایسے بچوں کوخیراتی اداروں کے سپرد کردیا جاتا ہے کہ انکی دیکھ بھال کی جائے۔ کیونکہ بغیر شادی کے جب  لڑکا لڑکی ماں باپ بنتے ہیں تو ایسی صورت میں پیدا ہونے والی اولاد کو کوئی بھی اپنانے کی ہمت نہیں کرتا ۔ ایسا ناجائز بچہ جب تمام عمر ماں باپ کی شفقت حاصل نہیں کرپاتا ہے اور اسے جب یہ علم ہوتا ہے کہ وہ ایک ناجائز بچہ ہے تو پھروہ اسی معاشرے سے اپنا انتقام لیتا ہے جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ لہذا ایسی صورت میں جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے،ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں دس لاکھ بچیاں  تیرہ سال سے انیس  سال کی عمر میں حاملہ ہوجاتی ہیں یعنی ہر ایک منٹ میں دوبچی حاملہ ہوجا تی ہیں ۔ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ہر دس لڑکیوں میں سے تین لڑکی حاملہ ہوتی ہے،اس لحاظ سے تقریبا پچھترلاکھ بچیاں حاملہ ہوتی ہیں، جو89%ہوتاہے، اورکل خواتین کا 16%ہوتاہے۔حکومت چالیس بلین ڈالر ان کی دیکھ بھال اور تعلیم پر خرچ کرتی ہے،ظلم تو یہ ہے کہ  جن لڑکوں سے وہ حاملہ ہوتی ہیں وہ لڑکے ان سے شادی نہیں کرتے ،آج بھی امریکہ میں اکتالیس بیالیس فیصد بچےان کے ماں باپ کی  شادی سے پہلےہی پیدا ہوجاتے ہیں ۔(از ویکیپیڈیا دی فری انسائکلوپیڈیا)

انسانی قانون فطرتِ انسانی کے خلاف:

یادرکھناچاہئے کہ  کمرعمری کی شادی پر جوپابندی لگائی  جارہی ہے وہ  فطرت انسانی  کے خلاف ہے،اس لیے اس قانون کا کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں  ہورہاہے، الٹانقصان کاسامناکرناپڑرہاہے۔چنانچہ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر سال ڈیڑھ ملین  یعنی  پندرہ  لاکھ نابالغ لڑکیوں کانکاح ہورہاہے۔ دوسری طرف پابندی لگانے کی وجہ سے اس کاسائڈایفکیٹ یہ ہواہے کہ  زناء یعنی اڈلٹری قانونی  اعتبارسے عام ہوگئی ہے، ایک رپورٹ کے مطابق  ہندوستان میں اوسطا  46/فیصد خواتین 18سال سے پہلے شادی کرچکی ہوتی  ہیں ،یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق 18/سال کی عمر سے کم 64لاکھ لڑکوں اورلڑکیوں کی شادی کی اطلاع ملی ہے،49لاکھ لڑکیاں اور 69لاکھ لڑکے قانونی عمر سے پہلے شادی شدہ ہیں،ان میں سے ایک لاکھ تیس ہزار بیوہ ہیں، اورایک لاکھ  24ہزارلڑکیاں طلاق شدہ ہیں ،یا انھیں ان کے شوہر چھوڑ چکے ہیں ،صرف یہی نہیں ،بلکہ اکیس سال کی عمر کے نیچے تقریبا 90 ہزار لڑکے ایسے ہیں جنکی بیویاں مرچکی ہیں اور پچہتر ہزار طلاق شدہ ہیں،2001 کی رپورٹ کے مطابق راجستھان ملک کے تمام ریاستوں میں سر فہرست ہے،اکھاتیج کے موقعہ ہزارروں شیرخواہ بچوں اور بچیوں کی شادی کرادی جاتی ہے، یہاں یہ روایت صدیوں سےچلی آرہی ہے،ریاست کی کل آبادی کا 6،5فیصدحصہ اس طرح کی شادیوں کا ریکارڈرکھتاہے،اس کے بعد مدھیہ  پردیش ،بہار ،اتر پردیش ،جھار کھنڈ،اڑیسہ گوا،ہماچل پردیش اور کیرالا آتے ہیں۔(Child Marriage In India Based on Census 2001)

Save the children.in (بچے بچاؤ) سائٹ کے مطابق ہندوستان میں 47%نابالغ بچیوں کی شادی ہوجاتی ہے۔ (https://www.savethechildren.in/others/child-marriage-in-india-facts-figures/)

2015-2016ء کی ایک رپورٹ کے مطابق نابالغ بچوں اور بچیوں کی شادی ہریانہ  میں41% تمل ناڈو میں37% مہاراشٹرامیں33% اورمنی پورمیں32%ہوتی ہے۔ایک دوسری رپورٹ کے مطابق 15سے 19سال کی عمرمیں 11.9%بچوں کی شادی ہوجاتی ہے۔پندرہ سال  کی عمرمیں 2.7% سولہ سال کی عمرمیں5.6% سترہ سال کی عمر میں11.0%شادیاں ہوجاتی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق تیرہ سال سے کم عمر کی0.6%بچیاں حاملہ ہوجاتی  ہیں۔تیرہ سال کی0.8%بچیاں،چودہ سال کی 2.8%پندرہ سال کی 7.7%، سولہ سال کی 16.5%،سترہ سال26.6%،اوراٹھارہ سال کی 30.7% بچیاں حاملہ ہوجاتی ہیں۔ India Child Marriage and Teenage Pregnancy based on NFHS-4(2015-2016)

اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کے مطابق دنیامیں ہر پانچویں لڑکے کی شادی کم عمری میں ہی کردی جاتی ہے، اٹھارہ برس کی عمرسے قبل ہی دولہابنادیے جاتے ہیں، ایسے بچوں کی سالانہ تعدادایک سوپندرہ ملین بنتی ہے۔ (https://mief.in/child-marriage-in-india/)

اس لیے عافیت اسی میں ہے کہ قانون فطرت پر پابندی  عائدنہ  کی  جائے،اورکم عمری کی شادی کی  قانونی اعتبارسے بھی گنجائش رکھی  جائے۔فقط

کوئی تبصرے نہیں