کچھ ’پردہ‘ بھی رکھئے-ودودساجد
کچھ ’پردہ‘ بھی رکھئے
ودودساجد
(زیر نظر سطور آج کے انقلاب میں ’نوائے امروز‘ کالم کے تحت شائع ہوچکی ہیں۔ آج کی کرناٹک ہائی کورٹ کی سماعت پر میرا ہنگامی کالم ’نوائے امروز‘ کل کے شمارہ میں شائع ہوگا اس لئے اسے یہاں نقل کرنا مناسب نہیں ہے۔ تو جو کچھ آج شائع ہوچکا ہے وہ اپنے احباب کیلئے یہاں پیش ہے)
کرناٹک میں میسور-بنگلور ہائی وے پر مانڈیا میں واقع پی ای ایس کالج آف آرٹس‘سائنس اینڈکامرس کی طالبہ کی چوطرفہ ستائش ہورہی ہے۔ہندوستان میں ہی نہیں دوسرے ملکوں میں بھی لوگ اس کی تعریف کر رہے ہیں۔کرنی بھی چاہئے۔اس نے کم بہادری کا کام نہیں کیا ہے۔اس نے بظاہر درجنوں غنڈوں سے لوہا لیا ہے اور کسی خوف کے بغیر انہیں پسپا کیا ہے۔جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے اس کی بہادری سے متاثر ہوکر اسے پانچ لاکھ روپیہ بطور انعام دیا ہے۔
بہت سے لوگوں نے اپنے فیس بک‘ وہاٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارموں پر اپنے اکائونٹس کی ڈی پی کے طور پر اس طالبہ کا فوٹو/اسکیچ لگایاہے۔فی الواقع اس بچی نے بڑی ہمت اور حوصلہ کا کام کیا ہے۔
لیکن ایک شخصیت اور ہے جس کے حوصلہ‘جذبہ اور ردعمل کا کوئی ذکر نہیں ہورہا ہے۔اس بچی کو شرپسندوں کے ہجوم سے جس نے ’پروٹیکٹ‘ کیا وہ اس کالج کے پرنسپل ڈاکٹر جے مہادیوا ہیں۔ انہوں نے بھی کسی خوف کے بغیر شر پسندوں اور بچی کے درمیان آکر جس طرح انہیں پیچھے دھکیلا اور جس طرح بچی کے کلاس روم میں جانے کا راستہ بنایا اس کی بھی اتنی ہی تعریف ہونی چاہئے۔ ایسے حالات میں کہ جب زمین سے لے کر آسمان تک زہریلی فضا بنادی گئی ہے اور جب با اختیار لوگ ان شرپسندوں کو تحفظ فراہم کرا رہے ہیں کسی کالج کے پرنسپل کا یہ اقدام انتہائی غیر معمولی ہے۔
کرناٹک میں حجا ب کے مسئلہ کے تعلق سے کرناٹک میں مختلف سیاسی‘سماجی اور دینی مکاتب فکر سے وابستہ افراد نے مجھے منفی اور مثبت معلومات فراہم کی ہیں تاہم مجھے ان معلومات اور افراد کے تبصروں کی بنیاد پر کسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوئی عجلت نہیں ہے۔ یہ وقت اس کا متقاضی ہے کہ ایسی اطلاعات یا آراء کو افشا نہ کیا جائے جن سے مسئلہ کا رخ دوسری طرف مڑجائے۔ تشویش یہ ہے کہ اس طرح کے مناظر کرناٹک میں دوسرے مقامات پر بھی ظہور پذیر ہوسکتے ہیں۔کرناٹک کے باہر بھی کچھ مقامات سے احتجاج کئے جانے اور مزید بڑے پیمانے پر احتجاج کی تیاری کی اطلاعات ہیں۔
قائدین اور اثر ورسوخ رکھنے والے افراد کو صورتحال کا انتہائی غیر معمولی جائزہ لیکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہورہے ہیں۔اترپردیش کا الیکشن بہت اہم ہے۔شرپسندوں نے اس مسئلہ پر یوپی میں شورمچانا شروع کر بھی دیا ہے۔مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بھی اس اشو کو زور و شور کے ساتھ اٹھا رہے ہیں۔ یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ کیایہ اچھانہیں ہوگا کہ کرناٹک اور دوسری ریاستوں کے لوگ بھی ابھی احتجاج یا اس طرح کا پروگرام عدالت کا فیصلہ آنے تک موخر کردیں؟
Post a Comment