اسکرین کااستعمال اوربچوں پراس کےاثرات

 اسکرین کا استعمال اور بچوں پر اثرات

حصہ سوم


ذہنی نشو و نما

فوائد: عمر کے ساتھ مطابقت رکھنے والا معلوماتی مواد بچے کی ذہنی نشو و نما کے لیے اچھا ثابت ہو سکتا ہے اور بچے کو بہت کچھ نیا اور اچھا سیکھنے میں مدد دے سکتا ہے بشرطیکہ والدین بچے کے ساتھ دیکھیں اور پوری طرح انوالو رہیں اور کمرشل پروگرامز اور اشتہارات سے مبرا بہترین کوالٹی کا مواد بچے کو دکھایا جائے۔ ان ایپس اور ویب سائٹس کی وجہ سے ایک غریب کے بچے کو بھی وہ سب بہترین مواد دیکھنے اور سیکھنے کے لیے حاصل ہے جو وہ اپنے اسکول سے نہ سیکھ پائے۔


نقصانات: والدین اسکرین میڈیا کو بطور بے بی سِٹر استعمال کرتے ہیں، بچوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھتے۔ یوں بچوں کا والدین کے ساتھ میل جول اور بات چیت کم ہوتی جا رہی ہے۔  والدین بچوں کو کتابیں لا کر دینے، کہانیاں سنانے کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اسکرین دیتے وقت تحقیق بھی نہیں کی جاتی کہ کون سا مواد معلوماتی ہے اور کون سا کمرشل۔ کم عمری سے ٹی وی اور کمپیوٹر سے سیکھنے والے بچوں میں گفتگو کے آداب، فوکس، اور دماغی صلاحیتوں کی کمی ہو رہی ہے۔ اسکے علاوہ والدین کے ساتھ جسمانی، جذباتی اور آئی کانٹیکٹ کم سے کم ہو رہا ہے۔


نفسیاتی نشو و نما

فوائد: بچے کی عمر کے لحاظ سے اچھے ڈیزائن کئے گئے معلوماتی ایپس نفسیاتی طور پر بچے کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ بچہ ہمدردی، برداشت، احترام جیسے جذبات سیکھ سکتا ہے۔ اچھا مواد دکھایا جائے تو بچے کو اضطرابی کیفیت میں سکون مہیا کیا جا سکتا ہے، جیسے ڈینٹسٹ کے پاس جاتے ہوئے بچہ گھبرا رہا ہو تو اسکو پہلے سے ایسی کہانیاں دکھائی جائیں کہ اسکا ڈر کم ہونے میں مدد ملے۔ یہاں یہ اصول والدین کو پہلے سے متعین کرنا ہوگا کہ کب، کہاں، کتنی دیر اسکرین کی اجازت ہے۔ فیملی ٹائم اور پبلک پلیسز میں بچوں کو اسکرین کے استعمال کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔


نقصانات: حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ والدین جب اسکرین پر زیادہ وقت خرچ کرتے ہیں تو انکے بچے توجہ لینے کے لیے الٹے سیدھے حربے استعمال کرتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کے والدین بچوں کا دھیان کسی مخصوص چیز سے ہٹانے کے لیے فون پکڑا دیتے ہیں، یا چپ کروانے کی غرض سے دیتے ہیں۔ بچہ یہ جان لیتا ہے کہ مجھے رونے پر فون ملتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ فون کی خواہش اور طلب کا اظہار کرتا ہے اور انکار پر زیادہ جھگڑا کرتا ہے۔ یوں بچے میں ضد، بات منوانے، جھگڑا کرنے جیسی عادتیں پختہ ہونے لگتی ہیں۔


دو گھنٹے سے زیادہ اسکرین دیکھنے والے بچوں میں معاشرے سے الگ تھلگ رہنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ جن بچوں کو پبلک پلیسز پر فون تھما دیا جاتا ہے، وہ دوستی کرنا نہیں سیکھ پاتے۔ تھوڑا بڑا ہونے پر تنہائی کا یہ احساس انہیں اندر ہی اندر کھانے لگتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھنے لگتے ہیں۔ غم و غصہ کی ایک مسلسل کیفیت انکے اندر بھڑکتی رہتی ہے جو وقتاً فوقتاً سامنے آتی ہے۔ 


جسمانی نشو و نما

فوائد: گو کہ اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنے سے بچوں کی فزیکل ایکٹیوٹی بہت متاثر ہوتی ہے لیکن تین سال کے بعد بچوں کی عمر کے حساب سے ایسے activity-based پروگرامز اور ایپس ہیں جو بچے کو انوالو کر سکتے ہیں اور کم سے لیکر زیادہ لیول تک کی فزیکل ایکٹیوٹی ٹی وی یا کمپیوٹر کے سامنے رہ کر بھی کر سکتا ہے۔ یوگا، فٹنس ایپس جو بچوں کی عمر کے مطابق ہوں، وی گیمز، کائنیکٹ وغیرہ میں ایسی گیمز موجود ہیں کہ بچہ اسکرین کے ساتھ بھی ایکٹو رہے۔


نقصانات: زیادہ گیم کھیلنے، ٹی وی دیکھنے سے بچے ذہنی طور پر بہت تھک جاتے ہیں۔ اسکرین کے کثرتِ استعمال سے وہ ذہنی سکون غارت ہو جاتا ہے جو اچھی نیند کے لیے ضروری ہے،۔ 


تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ کمرشل ٹی وی اور موٹاپے کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ پہلی وجہ تو زیادہ دیر تک بیٹھے رہنا۔ اسکے علاوہ یہ کہ بچوں کو اسکرین دیکھنے کے ساتھ کھانے کی عادت ہوتی ہے اور انکو پتہ نہیں چلتا کتنا کھا لیا، کب پیٹ بھر گیا۔ کمرشل ٹی وی میں جنک فوڈ کے اشتہارات ہوتے ہیں اور بچے صحت بخش کھانے کو ترجیح دینے کے بجائے جنک فوڈ کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ سب چیزیں مل کر بچوں میں موٹاپا پیدا کرتی ہیں، جو بڑے ہونے پر مزید بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔


میڈیا اسکرین سے فائدہ اٹھانے کے لیے کیا کیا جائے، اگلے حصے میں ان شا اللہ!

کوئی تبصرے نہیں