جوہم پہ گزری ــ ودودساجد
’جو ہم پہ گزری‘ ---
ودود ساجد
(انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)
اتر پردیش کے انتخابی نتائج کا جائزہ لیا جائے تواس میں تین عناصر سب سے زیادہ فائدہ میں اور تین عناصر سب سے زیادہ نقصان میں رہے۔۔ بی جے پی کے یوگی آدتیہ ناتھ‘ سماجوادی پارٹی کے اکھلیش یادو اور مسلم امیدوار فائدہ میں رہے۔
بلاشبہ بڑا فائدہ یوگی کو ہوا‘ ان کی حکومت بھی بنی اور ان کا ووٹ فیصد بھی بڑھا لیکن ان کی سیٹیں گھٹ گئیں۔توقع کے برخلاف اکھلیش کی حکومت نہیں بن سکی لیکن ان کا ووٹ فیصد بھی بڑھا اور ان کی سیٹیں بھی بڑھ گئیں۔مسلم ووٹ بہت زیادہ تقسیم نہیں ہوا اور ایسے وقت میں بھی مسلم امیدواروں کی کامیابی کا فیصد بھی بڑھ گیا اور سیٹیں بھی بڑھ گئیں جب ان کے خلاف نفرت عروج پر تھی۔بی جے پی کے اقتدار میں واپس آنے کے کئی اسباب ہیں لیکن مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ماحول نے بھی اس کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
سب سے زیادہ نقصان میں کانگریس اور ’پرینکا گاندھی‘ رہیں۔کانگریس کا ووٹ فیصد بھی گھٹا‘ سیٹیں بھی گھٹیں اورخود پرینکا کا سیاسی وقار بھی گھٹ گیا۔ بی ایس پی کی مایاوتی کی بھی‘ سیٹیں بھی گھٹیں اور ووٹ فیصد بھی۔ ان کا سیاسی وزن بھی گھٹ کر اس حد کو پہنچ گیا جہاں سے واپسی کے امکانات معدوم اور تاریک ہوگئے ہیں۔ان کے دلت ووٹرس اب تک تو بی ایس پی کے مسلم امیدواروں کو دھوکہ دیتے آئے تھے اب انہوں نے خود مایاوتی کو ہی دھوکہ دیدیا۔ سیاسی نقصان میں کسانوں کے لیڈر راکیش ٹکیت بھی رہے۔ان کی ڈھکی چھپی جارحانہ کوششوں اور دعووں کے باوجود کسانوں نے بی جے پی کو ہرانے کیلئے نہیں بلکہ اسے جتانے کیلئے ووٹ دیا۔خود اس لکھیم پور کھیری میں‘جہاں کسانوں کے احتجاج کے دوران مبینہ طور پر مرکز میں ایک وزیر کے بیٹے کی گاڑی سے کچل کر چند کسان ہلاک ہوگئے تھے‘بی جے پی نے تمام آٹھوں سیٹیں جیت لیں۔
الیکشن سے پہلے اور دوران الیکشن درجنوں واقعات ایسے ہوئے کہ جب بی جے پی کے ممبران اسمبلی‘ لیڈروں اور یہاں تک کہ وزیروں کی گاڑیوں کو کسانوں نے دوڑایا اور ان پر پتھرائو کیا۔بہت سی ویڈیوز ایسی بھی خوب وائرل ہوئیں جن میں احتجاجی اور ناراض کسان‘ بی جے پی قائدین کو گالیاں دیتے ہوئے نظر آئے اور انہیں انتخابی مہم چلانے نہیں دی۔ مجھے راکیش ٹکیت کبھی لایق اعتبار نہیں لگے۔لطف کی بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں خود کسانوں نے‘ خاص طور پر جاٹوں نے ان پر اعتبار نہیں کیا۔۔ کسانوں کے دوبارہ ممکنہ احتجاج کے حوالہ سے ٹکیت کا رونما ہونا اب مشکوک ہوگیا ہے۔۔
پرینکا گاندھی کئی برسوں تک سیاسی منظر نامہ پر آئی ہی نہیں تھیں۔انہوں نے یہ قربانی اپنے بھائی راہل گاندھی کیلئے دی تھی۔اگر 2014 کی کانگریس کی شکست اور بی جے پی کی فتح کے بعد بھی پرینکا گاندھی میدان میں آگئی ہوتیں توشاید کانگریس کی تنظیمی روح میں کوئی جان پھونکی جاسکتی تھی۔اس کا کوئی فائدہ یوپی کے 2017 کے الیکشن میں ہوسکتا تھا۔ توسیعی طور پر اس کا کچھ فائدہ 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں ہوتا۔مگر راہل گاندھی انتہائی ناکام سیاسی قائد ثابت ہوئے۔انہوں نے روتی بلکتی کانگریس کو گہری نیند سلادیا۔کانگریس کی صدارت کو قبول کرنے میں ان کے عامیانہ تکلف اورضرورت کے وقت پیٹھ دکھاکر بھاگ جانے کی جارحانہ ادا نے کانگریسیوں کو کنفیوژ کردیا۔جو کانگریسی پرینکا گاندھی کے اندر اگلی وزیر اعلی کا چہرہ دیکھ رہے تھے ان کی رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ گئی ہیں۔2024 پر بات کرنا ابھی قبل از وقت ہے لیکن ملک گیر سطح پر اگر بی جے پی کا مقابلہ کرنا ہے تو اکھلیش یادو‘ تیجسوی یادو‘ ممتابنرجی‘ کے سی رائو‘ جگن ناتھ ریڈی‘اودھو ٹھاکرے‘ ایم کے اسٹالن اور اروند کجریوال جیسی علاقائی طاقتوں کو محاذ بنانا پڑے گا۔۔
انتخابی محاذ پر یوپی میں مسلمانوں نے بالکل درست اور راست رویہ اختیار کیا۔انہیں اپنے کئے پر پشیمان نہیں ہونا چاہئے۔لیکن تشہیری محاذ پر ان کا رویہ درست اور راست نہیں تھا۔۔ غیر بی جے پی سیاسی پارٹیوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے کاندھے پر سیاسی بندوق رکھ کرشکار کھیلا۔ انہیں بی جے پی کا خوف دکھاکر اور سیکولرزم کی دہائی دے کر استعمال کیا جاتارہا لیکن 2014 میں مسلمانوں نے یک نکاتی مودی مخالف رویہ اپناکر جو جوش دکھایا اس میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا اور انہیں احساس تک نہ ہوا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔۔
بی جے پی کے خلاف جولڑائی اپوزیشن جماعتوں کومضبوط سیاسی حریف بن کرلڑنی چاہئے تھی وہ لڑائی کمزور مسلمانوں نے فرقہ وارانہ حریف بن کر لڑی۔ اپوزیشن نے بھی من حیث القوم مسلمانوں کو کمال ہوشیاری کے ساتھ براہ راست بی جے پی کے مقابلہ پر لاکر کھڑا کردیا۔بی جے پی بالواسطہ طور پر ناخواندہ‘ غریب اور دیہی ہندئوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئی کہ مسلمانوں کی یہ لڑائی بی جے پی کے خلاف سیاسی لڑائی نہیں ہے بلکہ ان کی یہ لڑائی ہندئوں کے خلاف فرقہ وارانہ لڑائی ہے۔ اس مکر و فریب کو مجلسی ترجمانوں اور مجلس کے سربراہ کے ناشائستہ بیانوں نے تقویت پہنچائی۔کیا آپ نے ایسی درجنوں بلکہ سینکڑوں ویڈیوز نہیں دیکھیں جن میں نوجوان اور عمر رسیدہ سب یہ کہہ رہے ہیں کہ یوگی اور مودی نے مہنگائی کردی تو کوئی بات نہیں انہوں نے مسلمانوں کو تو ٹھیک کردیا؟
اس ذہنیت کو نہ اکھلیش ٹھیک کرسکے‘ نہ پرینکا‘ نہ مایاوتی اور نہ راکیش ٹکیت۔ کسی نے اس رجحان کی حوصلہ شکنی تک نہیں کی۔صورتحال یہ ہوگئی کہ جو بلڈوزر تباہی اور توڑ پھوڑ کی علامت ہوتا ہے وہ یوگی آدتیہ ناتھ کی قدر و منزلت اور سیاسی طاقت کی علامت بن گیا۔یوپی میں ایسے کتنے مبینہ قدآور’مسلم مافیا‘ ہوں گے جن کے مکانات یوگی حکومت نے بلڈوزروں سے گرائے ہوں گے؟ ایک‘ دو‘ پانچ‘ دس‘ بیس‘ یا زیادہ سے زیادہ 50؟ لیکن بلڈوزر نے ایسی شہرت پائی کہ وہ یوپی کے چار کروڑ مسلمانوں کے خلاف 16کروڑ ہندئوں کی برتری کی علامت بن گیا۔یوگی نے اپنی انتخابی ریلیوں میں کھڑے ہوئے بلڈوزر دیکھ کر بارہا خوشی کا اظہار کیا اور بارہا اس کا ذکر بھی کیا۔ان کا نام ہی بلڈوزر بابا مشہور ہوگیا۔ان کی فتح کے بعد یوپی میں اور خاص طور پر گورکھپور میں جو جشن منائے گئے ان میں مٹھائیوں اور ڈھول تاشوں کی جگہ بڑی تعداد میں بلڈوزروں کی نمائش کی گئی۔
اب ایک سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یوپی کے مسلمان ڈپریشن‘ ٹینشن اور صدمہ میں ہیں؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔۔۔ تو پھر یوپی کے بعض دانشور‘ یہاں تک کہ کبار علماء تک کیوں مسلمانوں سے ڈپریشن اور ٹینشن سے باہر نکلنے کی اپیلیں کررہے ہیں؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسمبلی میں مسلم نمائندگی میں اضافہ کا کوئی فائدہ ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عام مسلمانوں کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا۔عموماً مسلم نمائندوں کے رویہ کی شکایتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔اس کے علاوہ مختلف جماعتوں کے مسلم نمائندے اپنی جماعت کی پالیسی سے الگ ہٹ کر مسلمانوں کے مسائل پر کوئی موقف اختیار نہیں کرتے۔وہ سکھوں جیسی ہمت نہیں دکھاپاتے جو کسی بھی سماجی یا مذہبی اشو پر سیاسی وابستگی سے اوپر اٹھ جاتے ہیں اور اسمبلی یا پارلیمنٹ‘ یہاں تک کہ سڑکوں پر بھی ایک ساتھ آجاتے ہیں۔
الیکشن ہوچکے اور نتائج نے اسی بی جے پی کو فاتح قراردے کر اقتدار سونپ دیا جس سے نجات پانے کی ساری ترکیبیں لڑائی گئیں۔یہاں تک کہ بعض عاقبت نا اندیشوں نے مجلسیں لگا کر دوسروں کی فتح کیلئے دعائیں تک کرا ڈالیں اور ایسی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر بھی ڈال دیا۔۔ اب تو غور اس پر ہونا چاہئے کہ اب مسلمان کیا کریں؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق یوپی میں تین سو کے قریب مسلم امیدواروں نے الیکشن لڑا۔الیکشن کمیشن نے انتخابی خرچ کی حد 40 لاکھ رکھی تھی۔ اتنا بڑا الیکشن اتنی کم رقم میں نہیں لڑا جاسکتا۔لیکن اسی کو حد مان کر تخمینہ لگائیں تو ان مسلم امیدواروں نے کم سے کم 120کروڑ روپیہ خر چ کیا۔غور کیجئے اگر یہ رقم وہ اپنے علاقوں میں اسکول کھولنے یا دوسری عوامی طبی' فلاحی سہولیات پر صرف کرتے تو اس کا کتنا فائدہ ہوتا۔ یوپی کے چھ درجن اضلاع میں کم سے کم 300 اسکول تو کھل ہی گئے ہوتے۔مسلمان اب بھی اپنے حلقوں کے متمول امیدواروں سے یہ مطالبہ تو کرہی سکتے ہیں۔خود جو تین درجن کے قریب مسلم نمائندے جیت کر اسمبلی میں پہنچے ہیں ان سے یہ مطالبہ ضرور کیا جانا چاہئے۔
یہ تجزیہ اب اگلے کئی ہفتوں تک ہوتا رہے گا کہ یوپی میں اکھلیش کے سخت مقابلے اوراپنی جارحانہ شبیہ کے باوجود یوگی آدتیہ ناتھ کیسے الیکشن جیت گئے؟ لیکن کوئی بھی غیر جانبدار تجزیہ کار یوگی حکومت کے’عوامی فلاحی پہلو‘ کو نظر انداز نہیں کرسکے گا۔ مختلف محکموں کی رپورٹوں کا جائزہ بتاتا ہے کہ گزشتہ ساڑھے چاربرسوں میں یوگی حکومت نے 45 لاکھ غریب گھرانوں کو پکے مکانات بناکر سونپے ہیں۔ میں نے یوپی میں بہت سے تجزیہ کاروں سے بات کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حکومت کی اس اسکیم سے انتہائی غریب مسلمانوں نے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔غیر جانبدار مبصرین کا خیال ہے کہ یوپی حکومت نے اس اسکیم کے تحت کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا ہے۔اسی طرح وزیر اعظم کی ’آواس یوجنا‘ کے تحت ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو آسان قرض بھی مہیا کیا گیا ہے۔2021 میں کورونا کے پہلے لاک ڈائون کے بعد سے اب تک حکومت کے دعوے کے مطابق 15 کروڑ لوگوں کو مفت راشن دیا گیا ہے۔اس اسکیم کی یوپی کے بہت سے مکینوں نے تصدیق کی ہے۔بہت سے مسلم محلوں سے ہمارے نمائندوں نے جومعلومات بہم پہنچائی ہیں ان کی رو سے ہر ایک راشن کارڈ ہولڈر کو مفت راشن فراہم کیا گیا ہے اور اس میں بھی کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا ہے۔۔
یہ سچ ہے کہ یوپی میں بے روزگاری کی شرح دوگنی ہوئی‘ مہنگائی نے آسمان کو چھولیا‘ شرپسندوں کو کھلی چھوٹ دی گئی‘ آوارہ مویشیوں نے لاکھوں کسانوں کی کروڑوں کی فصلیں برباد کردیں اورحکومت کی تساہلی کے سبب ساڑھے سات سو احتجاجی کسانوں کی جان گئی۔اس کے باوجود اگر بی جے پی دوبارہ اقتدار میں واپس آگئی ہے تو ہمیں جرات کے ساتھ یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ اس کی فتح میں اس کی فلاحی اسکیموں کا بھی عمل دخل رہا۔۔
مجھے نہیں معلوم کہ جوشیلے مبصرین اب کیا کہیں گے لیکن یوپی کے مسلمانوں سے میری دست بستہ اپیل یہ ہے کہ اب زندگی کے دوسرے پہلوئوں پر توجہ دیں۔مسائل سے انکار نہیں ہے۔حکومت بی جے پی کی ہے اور مسائل آپ کے ہیں۔ان مسائل کا حل خود آپ کو ہی تلاش کرنا پڑے گا۔جو لڑائی لڑنی تھی وہ لڑچکے۔اب کسی بھی سیاسی بوجھ کو ڈھونے کی بجائے خود اپنے مسائل کے حل کی فکر کیجئے۔حکومت کسی کی بھی ہو وہ سب کی ہوتی ہے۔وہ سب کے مسائل حل کرنے کی پابند ہوتی ہے۔مخالف سے بھی کام نکالنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔غور کیجئے کہ وہ طریقہ کیا ہوسکتا ہے!
Post a Comment