بی بی مسکان خان؛ مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ" بھاجپ" نے*
*بی بی مسکان خان؛ مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ" بھاجپ" نے*
معاذمدثر قاسمی
ان دنوں حجاب کا مسئلہ قومی نہیں بلکہ عالمی طور پر موضوعِ بحث بنا ہواہے۔ دراصل ایک ماہ قبل صوبہ کرناٹک کے اوڈپی کے ایک کالج کی انتظامیہ کی جانب سے چھ باحجاب لڑکیوں کو 'حجاب کو بنیاد بنا کر' اچانک کلاس میں داخلے سے منع کردیا جاتاہے۔ اس کار روائی کے خلاف طالبات اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اس مسئلہ کا فوری حل نکالتی، مگر حکومت نے اس کو نظر انداز ہی نہیں بلکہ اگر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ قصدا اس کو شہ دیا گیا۔ اپنے مطالبہ کی مانگ کر رہی طالبات کے خلاف زعفرانی ٹولہ میدان میں کود پڑا، اورصوبہ کے دگر علاقوں میں حجاب پوش طالبات کے خلاف مزاحمت شروع کردی۔ یہ مسئلہ اس وقت قومی بلکہ عالمی سطح پر موضوع بحث بن گیا جب مسکان نامی باحجاب لڑکی کو اپنے کالج میں داخلے کے وقت تنِ تنہا ، بھگوا دھاری جتھے کا سامنا کرنا پڑا۔ زعفرانی پٹہ لگائے غنڈوں کا ایک بڑا گروپ "جے شری رام" کا نعرہ لگاتے ہوئے اس تنِ تنہا باحجاب خاتون کی طرف گھیرا بندی کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ،مگر سلام ہو اس باہمت، شجاعت کی علامت لڑکی پر جو ان عناصر کے سامنے بغیر جھکے، بغیر ڈرے، اور بلا پس و پیش آگے بڑھتی چلی گئی اور اپنے اوسان کو مضبوط رکھنے کے لیے، منجمد خون میں گرماہٹ پیدا کردینے والے "اللہ اکبر اللہ اکبر" کا فلک شگاف نعرہ لگاتے ہوئے اپنی سمت بڑھتی ہی چلی گئی ۔
جوں ہی اوباشوں کے بیچ اس نہتی لڑکی کی ویڈیو منظر عام پر آئی ، چند ہی لمحوں میں بی بی مسکان عالمی توجہات کا مرکز بن گئی اور ہر طرف ان کے اقدام کی پزیرائی کی جانے لگی۔ کیوں کہ خون کے پیاسوں کے سامنے تنِ تنہا سامنے ڈٹ جانا یقینا دل اور گردے کی بات ہے۔ بی بی مسکان کے اس اقدام نے یقینا دعوت فکر دی ہے ، بہت سوں کو بہت کچھ سوچنے اور بہت کچھ لکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اس سلسلے میں بہت کچھ لکھاگیاہے اورآئندہ بھی بہت کچھ لکھا جائے گا۔ مگر یہاں پر قابل غور بات یہ ہے کہ آخر حجاب کا یہ مسئلہ اتنااہم مدعی بنا کیوں؟حالانکہ یہ ایک جمہوری ملک ہے اور ملکی دستور کی دفعہ 14- 19 -25 کے تحت ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کرنے، اپنی پسند کا کھانا کھانے اور اپنی پسند کا لباس پہنے کی آزادی ہے۔ پھر آخر اچانک اس مسئلہ کو اتنا زیادہ کیوں کر اچھالا گیا؟
ملک کے موجودہ تناظر کو دیکھتے ہوئے بلا پس و پیش اس کا جواب یہی دیا جاسکتا ہے کہ یہ بس ایک سیاسی چال ہے جسے بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے سیاسی مفاد کے لئے بھنا رہی ہے۔
فرقہ پرستی ہی اس پارٹی کا سیاسی زینہ اور ایندھن ہے۔ اسکے بغیر زعفرانی پارٹی کاسیاسی وجود ہی خطرے میں پڑجائے گا۔ جہاں کہیں بھی اسکا سیاسی قلعہ ڈگمگاتا ہے تو فرقہ پرستی کے بھوت کو الگ الگ شکل میں باہر نکال کر اپنے سیاسی قلعہ کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ماضی کی طرف اگر دیکھیں گے تو ایک طویل فہرست ملے گی جسے موجودہ مرکزی حکومت نے وقتا فوقتا اپنے سیاسی مفاد کے لئے استعمال کیاہے۔ کسی بھی جذباتی مسئلہ کو اچھالتی ہے اور جب تک مقصد پورا نہ ہوجائے اس کو ہر سطح پر خوب بھناتی ہے اور پھر اسکو سرد بستے میں ڈال دیا جاتاہے ۔ابھی حجاب کا مسئلہ ہے تو آئندہ کوئی اور مسئلہ کھڑا کیاجائے گا۔ اس ضمن میں فارسی کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں کہ!
؎ *گماں مبر کہ بپایاں رسید کار مغاں*
*ہزار بادہ ناخوردہ در رگ تاک است*
(ایسا مت سوچو کہ شراب خانے کے ساقی کاکام پورا ہوگیاہے وہ ضعیف ہوگیا ہے اور شراپ پلانے کا کام پورا کردیا ہے ،کیونکہ ابھی تو نہ جانے کتنے انگور باقی ہیں جن سے عرق نچوڑنا باقی اور جسے کسی نے نہیں چکھاہے)۔
صرف ایک حجاب کا مسئلہ باقی نہیں ہے، اور یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوگا بلکہ جب تک بی جے پی اور آرایس رہے گی اس طرح کے مدعے اٹھتے چلے آئیں گے۔ اسکے پٹارے میں کئی سارے خود ساختہ فتنے موجود ہیں جنہیں وہ موقع بموقع اچھالتی رہے گی۔مسلمانوں کو آئندہ بھی فرقہ پرستوں سے نکلے تیر کاسامنا کرنا ہوگا۔ فی الحال بی جے پی کسی بھی طرح یوپی کا الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔ اس نے لوگوں کو روزی روٹی ، دوا علاج ، ہاسپیٹل ، نوکری جیسے اہم مدعے سے بھٹکانے کے لئے فرقہ پرستی کے کئی حربے آزمائے ، مثلا جبرا تبدیلئ مذہب، جناح ، پاکستان، مظفر نگر میں ہندؤں کاپلائن جیسے مدعے کو اچھالا، اسکا خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آیا تو کرناٹک سے حجاب کے مسئلہ کو اچھال کر اسے میڈیا کے ذریعہ قومی مدعا بنانے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔
بی جے پی اپنی چو طرفہ ناکامیوں کےباوجود حکومت میں اسی فرقہ پرستی کے سہارے کھڑی ہے۔ بے روزگاری اپنے عروج پر ہے، نوجوان ڈگریوں کے باجود نوکریوں کےلئے ترس رہے ہیں، گزشتہ دنوں یوپی بہار کے لاکھوں نوجوانوں نے ریل کی نوکری کو لیکر بڑے پیمانے پر جو احتجاج کیا وہ نوجوانوں میں اپنے مستقبل کو لیکر عدم اطمینانی کی ایک جھلک تھی۔ اس حکومت کی ناکامیوں کی ایک طویل فہرست ہے، اور ہرناکامی کے بعد جب جب بھی عوام کی طرف سے سوال کاسامنا ہوتاہے تو اپنے پٹارے سے فرقہ پرستی کا ایک نیا شوشہ چھوڑ کر لوگوں کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دیتی ہے۔ پیر زادہ قاسم کایہ شعر اسی پس منظر کی بہترین عکاسی کرتاہے کہ؎
*شہر طلب کرے اگر تم سے علاجِ تیرگی*
*صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو*
جب بھی عوام شہر میں تاریکی، بھوک مری کی آواز اٹھائیں گے تو ضرور کچھ شوشہ چھوڑدے گی، کیونکہ آج اسکے ہاتھ میں سلطنت واقتدار ہے ۔
ایسے حالات میں مسلمانوں کو مایوسی و قنوطیت اور حالات سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے بادِ مخالف کا رخ موڑنے کا حوصلہ رکھنا چاہیے، اورگہری تاریکی میں ایک شمع جلاکر اطراف کے ماحول کو منور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اسی کو اقبال نے کہاہے کہ
؎ *مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے*
*تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی*
بی بی مسکان کا جو جرات مندانہ قدم سامنے آیا وہ انہی حالات میں سامنے آتا ہے۔ بی بی مسکان نے ایک چنگاری جلاکر پورے عالم میں ایک مثبت پیغام دیا اور پے درپے حالات کی وجہ سے مایوسی جیسی کیفیت کاشکار امت میں امید کی ایک جوت جگائی ہے۔ حالات سے جب نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا ہوجائے تو راہیں ایسے ہی نکلتی ہیں۔
بہرکیف؛ حجاب کا مسئلہ ابھی کورٹ میں ہے، کچھ دن شورو غل ہوگا پھر دیگر مسائل کی طرح اسے بھی سرد بستے میں ڈالدیاجائے گا۔ مگر یاد رہے کہ فرقہ پرستوں کا کھیل جاری رہے گا ، اگر آج موب لنچنگ ، لوجہاد ، جبراً تبدیلی مذہب اور حجاب تھا تو کل کوئی نیامسئلہ سامنے آئے گا۔ حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تمام حربوں کے باوجود وقتا فوقتا فرقہ پرستوں کو بھی کچھ نہ کچھ جھٹکے لگتے رہتے ہیں ، بہت سی جگہوں پر سیاسی شکت بھی ہوتی ہے مگر ان کاغلیظ کھیل بند نہیں ہوتا، سبق لینے کے بجائے ان کا مذموم عمل جاری رہتا ہے، اسی کو قرآن نے کہاہے کہ " کیا انہیں(منافقین کو) نہیں سوجھتا کہ ہر سال ایک یا دو بار آزمائے جاتے ہیں پھر نہ تو توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت مانتے ہیں" (سورہ توبہ ، آیۃ 126)
اللہ نے یہ منظر قیامت تک کے لیے لکھ دیا ہےکہ یہ لوگ اپنی رسوائی کے بعد بھی اپنی گندی حرکت کو جاری ہی رکھیں نگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاذ مدثرقاسمی،
مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر جوگیشوری، ممبئی
muazmuddassir@gmail.com
8430874202
Post a Comment