اللہ کی یاد کی طاقت*جمعہ خطبہ – بابت ماہ فروری 2022
*اللہ کی یاد کی طاقت*
جمعہ خطبہ – بابت ماہ فروری 2022
.....................
الحمد لله رب العالمين ...والعاقبة للمتقين.. والصلاۃ و السلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔ أما بعد!
فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم: اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا "وَتَطْمَئنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَئنُّ الْقُلُوْبُ".
جہانوں کا خالق اور رب اللہ جل شانہ کے احکام کو ماننا مخلوق انسانوں کے لیے فرض ہے۔ مسلمان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکاموں پر عمل کرے۔ کوئی سچا مسلمان تب بنتا ہے جب اللہ تعالٰی کے احکام یا اسلام کو دل میں مکمل طور پر سما لیتا ہے، اور بلند آواز سے اس کا اعلان کرتا ہے اور زندگی میں ان پر عمل کرتا ہے۔ اسلام کو ماننا اس کو اپنے اندر بسانا اور اس پر عمل کرنا ایک انسان کی بڑی ذمہ داری ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰي نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ فَوَيْلٌ لِّــلْقٰسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ۭ اُولٰۗئكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ".
اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے ۔ (اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے ان باتوں سے کوئی سبق نہ لیا؟) تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصحیت سے اور زیادہ سخت ہوگئے ۔ وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ (22:39)
اور جو دل خدا کو یاد نہیں کرتے وہ سخت ہیں۔اور اللہ کا ذکر کرنے والے قلوب وسیع ہیں۔ بیشک انہیں کو حقیقی نور نصیب ہوتا ہے۔
اِس آیت کی روشنی میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کو پہنچاننا، اس کے اوصاف و صفات کو تسلیم کرنا اور اللہ جل شانہ کا ذکر کرتے رہنا کتنا اہم فریضہ ہے۔
اس کے برعکس جو لوگ اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتے ہیں ان کے ذہن کند ہو چکے ہیں۔ ان میں زنگ لگ چکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا ذہن و دل کی صفائی کی نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو مخلصانہ یاد رکھنے والوں کے دل و دماغ مطمئن رہتے ہیں ۔ غیر اللہ کا خوف، کوئی مصیبت، کوئی پریشانی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ہے ۔ ان کے قلوب ہمیشہ شانت اور پر سکون رہتے ہیں۔
ماحول خواہ کتنا ہی خراب ہو جائے، مصیبت خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، اور سماجی طور پر خطرات خواہ کتنے ہی لاحق کیوں نہ ہوں، اللہ تعالیٰ جس قدر ان کے دلوں کو جماتا ہے اُسی قدر ان میں ہمت و جواں مردی کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے اور ہر حال میں سکون و اطمینان محسوس کرنے لگتا ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
"اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَئنُّ الْقُلُوْبُ".
یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے (اس نبی ﷺ کی دعوت ) کو مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو ! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔(28:13)
ایک سفر کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے۔ اسلام کا دشمن محمد ﷺ کو قتل کے ارادہ سے سامنے آکر کھڑا ہوگیا، رسول اللہ ﷺ کی تلوار لے لی اور نبیﷺ کو جگا کر تلوار لہراتے ہوے پوچھا: "محمد اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟".
نبی کریم ﷺ نے بڑے ہی اطمینان سے جواب دیا: "اللہ !!!" یہ سننا تھا کہ اس کے ہاتھ کانپنے لگے اور تلوار ہاتھ سے نیچے گر گئی۔ اب آپ ﷺ نے گری ہوئی تلوار کو اٹھایا اور پوچھا: "اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟"۔ اس نے کہا: آپ کے سوا مجھے اور کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔
یہ وہ واقعہ ہے جو ہم بچپن میں پڑھتے اور بچوں کو پڑھاتے ہیں؛ لیکن یہ واقعہ ہمیں کیا سکھا تا ہے، اس پر کبھی غور کیا ہے؟ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ "مصیبت کے ماحول میں سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور خود اللہ تعالیٰ کا نام ہے"۔
فی الحقیقت یہ ایک اعلان ہے کہ "اللہ سب سے بڑا ہے"۔ کیا مومن کے لیے اس سے بڑا کوئی ہتھیار ہو سکتا ہے؟ کیا ہمیں یہ ہتھیار نہیں چاہیے؟
یہی وجہ ہے کہ اللہ کی یاد سے غافل لوگوں کا ایمان کمزور ہوتا ہے۔ ایسے لوگ گمراہی کے دلدل میں پھنسے ہوتے ہیں؛ مگر انہیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا ہے۔
ایمان والوں کے پاس اللہ رب العالمین کی شان کو تسلیم نہ کرنے اور اس کے احکامات کے سامنے نہ جھکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ وہ تو ہر حال میں اس کے آگے سر تسلیم خم کرتے اور اپنے آپ کو اس کے احکام پر نچھاور کر دینے کو تیار رہتے ہیں۔
ایک مرتبہ مکہ کی بڑی شخصیت سے اللہ کے رسول ﷺ نے دریافت کیا:
"مَا أَفَرَّكَ أَنْ يُقَالَ: "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ" فَهَلْ مِنْ إِلَهٍ إِلَّا اللَّهُ؟ مَا أَفَرَّكَ أَنْ يُقَالَ: "اللَّهُ أَكْبَرُ"، فَهَلْ شَيْءٌ هُوَ أَكْبَرُ مِنْ اللَّهِ -عز وجل-؟".
عدی سچ سمجھنے کے بعد بھی آخر کیوں فرار ہو رہے ہو؟ کیا یہ سمجھ رہے ہو کہ "لا الہ اللہ" کہنا پڑے گا۔ کیا اس سے بچ رہے ہو۔ کیا تم مانتے ہو کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ عدی بالکل خاموش تھا۔ اے عدی! آخر تم کس سے بچ رہے ہو؟ کیا "اللہ اکبر" کہنے سے بچ رہے ہو۔ بالآخر عدی نے اللہ کی شان کو قبول کیا، اس کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کیا، اور مسلمان ہو گئے۔ اس منظر دیکھنے والے صحابہ نے "اللہ اکبر" کہ کر ان کا خیر مقدم کیا ۔
"اللہ اکبر" اللہ کی اطاعت کا نعرہ ہے۔ قربانی کا نعرہ ہے۔ "اللہ اکبر" بے خوفی کا جملہ ہے۔ یہ خود نجات کا بول ہے۔ یہ امن کا لفظ ہے۔ یہ انصاف اور سچائی قول ہے۔ آخر کار یہ آزادی کا نعرہ ہے۔ میرے اوپر اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک کے سوا کوئی نہیں ہے۔ کسی آدمی کو دوسرے آدمی پر غلبہ حاصل نہیں ہے۔ سب آزاد ہیں۔ کوئی کسی کا غلام نہیں سب اللہ کا غلام ہے۔ بس یہی "اللہ اکبر" اعلان کر رہا ہے۔
کیا دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جنھو ں نے "اللہ اکبر" کی صدا نہیں سنی ہے؟ آج دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں یہ آواز ناآشنا اور غیر مانوس ہو.. یہ وہ آواز ہے جو پورے ملک کی مساجد سے پانچ مرتبہ سنائی دیتی ہے۔۔۔ ایک اذان میں چھ تکبیریں ہوتی ہیں اور ایک اقامت میں بھی اتنی ہی مرتبہ ہوتی ہیں؟ اور اس طرح نماز کی ایک رکعت میں چھ تکبیریں ہوتی ہیں۔ اس طرح پنچ وقتہ فرض نمازوں اور سنتوں کو ملائیں گے تو کتنی ہوجائیں گی؟
نماز کے بعد سوتے وقت اس تکبیر کا ورد کرنا مسلمان کی روایت ہے۔
خلفیہء دوم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول ہے:
"قول العبد "الله أكبر" خيرٌ من الدنيا وما فيها". ایک غلام کا "اللہ اکبر" کہنا دنیا اور اس میں جو کچھ بھی اس سے بہتر ہے۔
"اللہ اکبر" اشتعال انگیزی نہیں، اسلامی نظریے کا سنگ بنیاد ہے۔ اس کا مطلب ہے "اللہ سب سے بڑا ہے". وہی خالق و مالک ، اس کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ نے صرف مسلمان کو ہی پیدا کیا؛ بلکہ اس کا مطلب ہے: "اللہ تعالیٰ کل کائنات میں بسنے والی ساری مخلوق کا خالق ہے"۔
اللہ تعالیٰ پر یا کسی دیوتا پر ایمان نہ رکھنے والے اہل دھرم کہلا سکتے ہیں؟ کسی پر ایمان رکھنے والوں کو ہی دنیا کی نظر میں دھارمک کہا جاتا ہے؛ مگر اللہ اکبر پر ایمان لانے والا سب سے بڑا اور حقیقی دھارمک ہے۔
بی بی مسکان خان کو سب جانتے ہیں۔ ان لڑکیوں میں سے ایک ہے جس نے اپنی مرضی کے مطابق لباس پہننے کی آزادی کے لیے اپنا ہاتھ بلند کیا۔ اس بہادر لڑکی کی تنہا جدوجہد کا بین الاقوامی سطح پر بھی چرچا ہے.. صرف ایک چیز جس نے لڑکی کو دھارمک جنونیوں کے آنے والے ہجوم کا سامنا کرنے کی ترغیب دی وہ اس کا اپنے اندر اللہ پر یقین تھا۔جو اللہ اکبر کے نعرے کے طور پر زبان پر باربار جاری ہوگیا۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ 'اللہ سب سے بڑا ہے' تو اس سے دماغ اور جسم کو جو توانائی ملتی ہے اس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی کوئی حد بندی نہیں کی جا سکتی ہے۔
قرآن کہتا ہے۔
"وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيْرًا".
اور کہو : ’’ تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ، ( نہ اولاد ہے) نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے، اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پشتبان (ولی) مددگار ہو اور اس کی بڑائی بیان کرو کمال درجے کی بڑائی۔ (111:17)
جہاں تک اللہ تعالیٰ کو ایک ماننے والوں کی بات ہے تو کیا اس نعرے سے زیادہ کوئی دوسری چیز اس کے اندر اتنا جوش وخروش بھر سکتا ہے؟ نہیں، بالکل نہیں۔
ہاں لیکن یہ نعرہ بدکاروں، خیر کے دشمنوں اور منافقوں کے لیے بہت پریشان کن ہے۔ یہ ان میں رعب بھر دیتا ہے اور انہیں خوفزدہ کردیتا ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ تکبیر ملعون/شیطان اور اس کے ساتھیوں، فرقہ پرستوں، حق کے دشمنوں، برائیوں کے علمبرداروں کے لیے سب سے خوفناک کلمہ ہے۔
مگر یہ حقیقت ہے کہ "اللہ اکبر" پناہ مانگنے والوں کو پناہ دیتا ہے۔ اور ظالموں کو ہیبت سے بھر دیتا ہے۔
نئے ہندستان کی صورتِ حال سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ کتنے بے گناہ لوگوں کو یہاں مار دیا جاتا ہے؟ لوجہاد ، بیف، گھر واپسی وغیرہ بہت سے ناموں پر اقلیت طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان اور دلت بھائیوں کی ماب لنچنگ کی جاتی ہے۔ اور حکومت اس پر کوئی ایکشن نہیں لیتی ہے۔
اس طرح کے بہت سے واقعات ہم جانتے ہیں۔ اس طرح کی صورتِ حال میں دشمنوں کے خلاف "اللہ اکبر" کی صدا بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن جب ایسی صورت حال کا سامنا ہوتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ ڈر کر دشمن جیسا کہتا ہے ویسا کہنے اور کرنے لگتے ہیں۔ پھر بھی ان کو مار دیا جاتا ہے۔
ہم کو کیا لگتا ہے ان سفا ک قاتلوں کے آگے رحم کی بھیک مانگنا، گڑگڑانا جائز ہے؟ اور کیا ایسا کرنے سے ہم کو کوئی فائدہ مل سکتا ہے؟
کیا ایسی صورت حال میں ہمت کے ساتھ "اللہ اکبر" کا نعرہ لگا کر ان سے مقابلہ نہیں کرنا چاہیے؟
کیا بتا سکتے ہیں کہ ان سنگھی آتنک وادیوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کتنے لوگ جان بچا سکے ہیں؟ کوئی نہیں ! یہی حقیقت ہے۔
پھر ہم کیوں اپنے ایمان کا سودا کریں؟ ہم کیوں غیر اللہ کے سامنے مدد کی بھیک مانگیں۔ بس اللہ پر بھروسہ کریں اور وہی زندگی کی ضمانت دینے والی تکبیر "اللہ اکبر" کہتے ہوے عزت کی زندگی جئیں یا پھر شہادت کا جام نوش کرلیں۔
سنگھ پریوار مسلمانوں اور دلتوں پر آئے دن حملہ کرتا رہتا ہے۔ لیکن ہندستان میں ایسی تکبیر اِس ماحول میں اب تک بلند نہیں ہوئی ۔ یا یوں کہیے ابھی تک کوئی دفاع کے لیے بالکل تیار ہی نہیں ہوا؛ لیکن اس کے برعکس اس لڑکی نے ہندستانی مسلمانوں کو نیا جوش و جذبہ دے کر حق کے دشمنوں سے ٹکرانے کا شعور پیدا کر دیا۔ ہمارے ملک میں دو چہروں والے منافق ہیں جو "اللہ اکبر" کہنے والی مسکان کے نعرے پر طنز کستے ہیں اور اس نعرے کو فسطائیت کے نعرے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ہمیں ان دوغلے لوگوں کی شناخت کرنے کی ضرورت ہے جو ایک ہی وقت میں مظلوم اور ظالم کا ساتھ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کیا انصاف پسند لوگ کبھی ناحق کے ساتھ کھڑے رہ سکتے ہیں؟
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم صرف اسی صورت میں زندہ رہ سکتے ہیں جب ہم اس نظریہ پر قائم رہیں جس کی وجہ سے ہمیں ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے۔ ہمیں یہ تکبیر اذان میں ، نماز میں، قربانی میں ادا کرنے کی طرح زندگی میں، خراب حالات میں، لڑائی میں پکارنی ہوگی۔
ہمارا نظریہ، ہماری خواہش، ہمارا کردار اور ہمارا مزاج یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو بالکل چھپانے کی ضرورت نہیں ہے ہندستان میں جہاں فاشزم دہشت پھیلاتا ہے، وہاں اللہ اکبر کے دو کلمے پڑھنے کے علاوہ کوئی دوسری جرات نہیں ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ وہ نعرہ ہے جس نے بدر اور احد میں دشمنوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اگر ہم مسلمان اللہ اکبر کے نعرے سے ڈرتے ہیں تو اس کی وجہ اندرونی منافقت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے ہماری حفاظت فرمائے۔
محترم بھائیو!
ہمارا مستقبل تشویشناک ہے اور ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ اسلام کی ہر علامت اور ثقافت کو تبدیل کرنے اور بالآخر اسلام کو ہی تباہ کرنے کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مرحلہ وار عمل کا حصہ ہے۔ دشمنوں سے ڈر کر ان کے آگے جھک کر ان کے ظلم سے سمجھوتا کر کے کسی طرح آگے بڑھنے کی امید رکھ رہے ہیں ،تو خبردار! ہماری پہچان اور شناخت ایک ایک کر کے غائب کر دی جائے گی۔ اور ہم تماشا دیکھتے رہ جائیں گے۔ یہی فاشزم (آرایس ایس اور سنگھ پریوار) چاہتا ہے۔
مختصراً آئیے اب ہم یہ عزم کریں کہ جس کے نام پر پوری قوم کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس نعرے کے ساتھ زندگی کا سفر جاری رکھیں گے، نہ ڈریں گے، دبیں گے اور نہ ہی قوم و نسل کے حوصلوں کو پست ہونے دیں گے۔ ان شاءاللہ۔
اللہ تعالیٰ مدد ونصرت کا معاملہ فرمائے۔ اور ہمت و حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
اللہ اکبر ۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر
و آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔
٭٭٭
Post a Comment