مال کی لالچ* جمعہ خطبہ
*مال کی لالچ*
جمعہ خطبہ بابت ماہ: جنوری: ٢٨، ٢٠٢٢ مطابق:٢٤، جمادی الأخری، ١٤٤٣
منجانب:…………………………………………………………آل انڈیا امامس کونسل
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم، أما بعد! فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم
”وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتَاکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا“۔۔(قصص:۷۷)
معزز سامعین کرام!
آج ہماری تقریر کا عنوان ہے: ”مالی لالچ کے نقصانات!“۔ اللہ تعالی سے دعا کریں کہ ہمیں صحیح بات بولنے اور ہم سب کو صحیح کہی ہوئی باتوں پر عمل کرنے اور ان باتوں کو دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آ مین۔
مال ایک ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر انسانی زندگی ممکن نہیں ہے۔اسلام یہ حکم نہیں دیتا کہ دنیا کے تمام عیش و آرام چھوڑ کر ایک راہبانہ زندگی گزارو۔ اسلام مال کمانے سے منع نہیں کرتا؛ بلکہ مال کمانے کی ترغیب دیتا ہے۔ مال کمانے کی چاہت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔قرآن کا کہنا ہے کہ: ”وَتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا“۔ اور تم (انسان) مال سے بہت زیادہ پیار کرتے ہو۔(الفجر:٢٠)
اسلام کے اقتصادی نظام کا اہم حصہ”زکوۃ“ ادا کرنا اور سود سے بچتے رہنا ہے۔ اس کے لیے انسان کو چاہیے کہ مالی اعتبار سے ترقی حاصل کرے اور اس کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے۔انسان کو نیکی اور برائی کی طرف راغب کرنے میں مال کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔قرآن میں تقریبا ۰۸ سے زائد جگہوں میں مال کے فوائد و نقصانات بیان کیے گئے ہیں۔
”وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتَاکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا“۔(قصص:۷۷)
جو کچھ تجھے اللہ تعالی نے دے رکھا اس کے ذریعے اپنی آخرت کی تلاش جاری رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو مت بھول“۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مال کا مالک اللہ تعالی ہے۔اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ مال ہمارے لیے اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش ہے۔”وَاٰتُوْہُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیٓ اٰتَاکُمْ“۔اللہ تعالی نے جو مال تمھیں دے رکھا ہے اس میں سے انہیں بھی دو۔(النور:۳۳)
آمدنی کے ذرائع:
عام طور پر حلال مال کمانے کے ۴ ذرائع ہیں۔ دوسرے الفاظ میں چار ذرائع سے کمائے مال حلال ہوتے ہیں:
……۱۔ محنت مزدوری کرکے حاصل کیا جانے والا مال۔
……۲۔ وراثت میں ملا ہوا مال۔
……۳۔ انعام،تحفہ، ہدیہ یا صدقے کے ذریعے ملنے والا مال۔
……۴۔ ایمان داری کی بدولت،عدالت سے ملنے والا مال۔
جس طریقے سے حلال ذرائع سے حاصل شدہ مال حلال ہوتا ہے۔ اسی طرح حرام ذرائع سے حاصل کیا جانے والا مال حرام ہوتا ہے۔ دھوکہ دے کر،چوری کرکے،رشوت لے کر،چھین کر،مال میں ملاوٹ کرکے اور سود کے ذریعے حاصل کی جانے والی دولت بالکل حرام ہے۔
تجارت:
مال کمانے کا ایک اہم ذریعہ ”تجارت“ ہے۔ مال حاصل کرنے کے لیے اسلام نے تجارت کو بہت اہمیت دی ہے۔آج کل ہمارے علاقوں میں بہت سی تجارتیں ہورہی ہیں۔تجارت چاہے کسی بھی چیز کی ہو،وہ اسلام کے دائرے میں ہونی چاہیے۔قرآن کہتا ہے کہ خرید وفروخت آپسی رضامندی سے ہونی چاہیے۔(نساء:٢٩)
موجودہ دور میں تجارتوں میں بہت زیادہ دھوکہ اور حیلہ کیا جارہا ہے۔اس لیے قرآن کا فرمان ہے کہ: ”تم دھوکے کی تجارت کرکے ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔وہ تمہارے درمیان ظلم و دشمنی کا سبب بن جائے گا“۔(نساء:٢٩,٣٠)
احتیاط برتنے والی چیزیں:
ناپ تول اورسامان کے معیار میں کمی بیشی نہیں کرنا۔
کمی بیشی کو چھپا کر اس کی اچھائی بیان نہیں کرنی چاہیے۔ جتنی اچھائی ہو اُتنی اچھائی اور جنتی برائی ہو اُس کو واضح کر دینی چاہیے۔
مال میں ملاوٹ نہیں کرنا چاہیے اور ہر وقت دھوکہ دَہی سے بچنا چاہیے۔
ایسے کام دنیا و آخرت میں خسارے کا ذریعے ہوں گے۔ہم کو ایسا کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
کمائی میں اخلاقیات کا لحاظ:
ایک شخص ایک ایسے بازارمیں گیا جہاں ایک ہی سامان کی بہت سی دکانیں تھیں۔وہ ایک دُکان میں داخل ہوا تو دیکھا کہ دُکان کا مالک موجود نہیں ہے۔ پڑوس کی دکان کا مالک اس دکان پر آیا،اس کو جو سامان چاہیے تھا اس نے دے دیا اور پیسہ لے کر اس کے ڈیسک میں رکھ دیئے۔کسٹومر نے کہا کہ یہی سامان آپ اپنی دکان سے بھی تو دے سکتے تھے۔ ایسا کرتے تو یہ پیسہ آپ کمالیتے۔ اس نے جواب دیا نہیں، یہ اللہ تعالی نے اس کے لیے طے کررکھا تھا؛ اس لیے آپ اس کی دکان پر آئے۔ اس کی دُکان پر آئے تو پیسہ انہی کو ملنا چاہیے۔
ایسے بہت سے تجربات آپ لوگوں کو بھی ہوں گے۔صحیح کرایہ لینے والے آٹو ڈرائیور،سامان لیتے وقت غلطی سے زیادہ پیسہ یا سامان آجائے تو واپس لوٹانے والے لوگ۔مال کی کمی اور نقص کو بتادینے والے تاجر، حدیث میں ذکر ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے جنت میں اعلی مقام ہے۔ہمیں اپنی خریدو فروخت میں ایمانداری سے کام لینا چاہیے۔
دھوکے کی تجارت:
دین دار کہلانے والا، سمجھ دار، قابل بھروسہ سمجھا جانے والا ایک شخص، لوگوں سے وعدہ کرتا ہے کہ میں تمھیں ۳/ لاکھ میں بہت اچھا گھر بناکر دوں گا۔دو تین لوگوں کو اچھا گھر بناکر بھی دیتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو اس پر یقین ہو جاتا ہے۔ گھر کا خواب دیکھنے والے بہت سے لوگ جیسے تیسے پیسے اکھٹا کر کے اس شخص کے حوالے کر دیتا ہے، جب اس شخص کے پاس وافر انداز میں پیسے جمع ہو جاتے ہیں تو وہ سب لے فرار ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے واقعات آج بہت سی جگہوں پر پیش آ رہے ہیں اور کیس اور مقدمے بھی درج ہو رہے ہیں۔
بہت سے لوگ ہیں جو بغیر محنت کے مالدار بننے کی چاہت رکھتے ہیں۔وہ آسان پیسے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔بٹ کوئن،کرپٹو کرنسی،رائس پلنگ،نیٹ ورک مارکیٹنگ، اس طرح کے بہت سے ناموں پر دھوکہ دینے والوں کے بہکاوے میں لوگ آجاتے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ ”مال کی لالچ“ ہے۔ لالچی آدمی کا ان سب سے بچنا آسان نہیں ہے۔ بڑے بڑے پولیس افسران کے پھنس جانے کے و اقعات بھی موجود ہیں۔
محنت سے حاصل ہونے والا مال:
سب سے بہترین کمائی اپنی محنت کی کمائی ہے۔ اس کی پاکیزگی اور بابرکت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اپنی محنت کی کمائی کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”مَا أَکَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَیْرًا مِنْ أَنْ یَأْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ“،
کسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے حاصل شدہ کھانے سے زیادہ بہتر کھانا کبھی نہیں کھایا۔(بخاری: ۳/ ۷۵، حدیث: ۲۷۰۲)
ایک کامل اسلامی کارکن کی سوچ،محنت اور وقت اسلامی کاموں کے لیے وقف ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مالی معاملات کے دھوکوں سے ناواقف رہتا ہے۔اس لیے ایسے جالوں سے ہوشیار رہیں، جہاں پوری زندگی کی کمائی کھونی پڑے اور اپنی عزت اور بھروسہ کو بھی بٹَّہ لگے۔چین و سکون چلا جائے اور ذلت و رسوائی مقدر بن جائے۔ ذیل میں بزنس کی کچھ شکلیں بیان کی جاتی ہیں جن کے ذریعے عام طور پر دھوکہ دیا جاتا ہے۔
۱:Money chain منی چین بزنس:
ایک چرب زبان شخص آپ کے پاس آتا ہے اور کچھ پروڈکٹس کا تعارف کراکے کہتا ہے:”اسے خرید کر آپ استعمال کرسکتے ہیں، یا اپنے قریبی لوگوں کو دے سکتے ہیں،یہ سامان خریدتے ہی آپ ہمارے بزنس پارٹنر بن جائیں گے،اور اگر اس سامان کا تعارف آپ دوسرے دو لوگوں سے کرائیں گے اور انھوں نے سامان خرید لیا تو اس کا کچھ منافع آپ کو بھی ملے گا۔اس طرح آپ کا بزنس چل پڑے گا۔ زیادہ لوگوں کو جوڑنے پر دوسرے ممالک کا سفر اور پیسے اور کار وغیرہ بہت سے سامان ملیں گے۔
ایک دوسرا تیز طرار شخص آپ کے پاس آتا ہے اور دوسرا بزنس پلان دکھاتا ہے کہ اگر آپ ایک لاکھ روپے دیں گے تو آپ کودس ہزار روپے ہر مہینے ملیں گے۔اس طرح کہہ کر آپ سے پیسے لیتے ہیں اور دو تین مہینے تک پیسے بھی دیتے ہیں۔جس سے ہم کو یقین ہو جاتا ہے کہ”یہ بھروسہ مند آدمی اور قابل منافع بزنس ہے“ اور ہم اور بھی بہت سے لوگوں کو جوڑدیتے ہیں۔ جب اس شخص کے ہاتھوں میں کروڑوں روپے آجاتے ہیں تو وہ شخص سارا مال لے کر فرار ہوجاتا ہے۔
اس طرح کی بہت سی دھوکے بازیاں چل رہی ہیں۔ جولوگ اس طرح کے واقعات سے متاثر ہیں یا اس سے جانکاری رکھتے ہیں،وہ چاہے کتنابھی خبردار کرے، لیکن کوئی سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے۔بہت سے لوگ تو اس کی خصوصیات و منافع اور اس کے متعلق جائز اور مستند ہونے کے فتاوی بھی اپنے ساتھ لے کر گھومتے ہیں۔
بعض لوگ اپنے تمام تعلقات کو استعمال کرکے اس کمپنی کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرنے لگتے ہیں۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس میں شامل ہونے والے لوگ جو پیسہ جمع کرتے ہیں، پیسہ اور اس کا منافع وہ سب منافق لے کر بھاگ جاتا ہے۔ اور ان محنت کرنے والوں کو آخر میں صرف رسوائی اور ذلت ہاتھ لگتی ہے۔
ایسے کاروبار میں زیادہ تر لوگ یہ سوچ کر جاتے ہیں کہ اگر ہمارے پا س پیسہ ہوگا تو اپنا مکمل وقت دین کے لیے دے سکیں گے۔لیکن آخر میں سب کچھ برباد کرکے نہ دین کے رہتے ہیں اور نہ گھر و خاندان کے۔ بسا اوقات اس طرح کے حالات کے بعد سب سے دور ہونے کے امکانا ت بڑھ جاتے ہیں۔ ہمیں یہ بہت اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ تمام شیطانی راستے ہیں جو ”مالی لالچ“ کی وجہ سے انسان ان راستوں پر چل پڑتا ہے۔ ان سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔
۲:کمیشن:
بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن کا کاروبار ہی کمیشن لینا ہے۔اس میدان میں اتنے شکوک و شبہات ہیں کہ اس کے اسلامی احکامات بتانا بھی مشکل ہے۔صحیح محنت کرکے دونوں فریقین کی رضامندی سے ملنے والا پیسہ حلال ہے۔کسی جگہ کو فروخت کروانا،کرایے پر گھر دلوانا، سامان خریدنے کے لیے دُکان بتانا،کام کے لیے مزدور فراہم کر دینا،رشتہ تلاش کرکے دینا،ان سب کے لیے موجودہ دور میں کمیشن لیناعام بات ہوچکی ہے۔اس بات سے انکار نہیں کہ ان سارے کاموں سے سماج کا فائدہ ہے۔لیکن اکثر یہ لوگ غیر اسلامی اور غیر انسانی کام کرنے پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں۔اس میدان میں کام کرنے والوں کو اپنے مال کی پاکیزگی کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔یہ سوچنا چاہیے کہ کیا یہ حلال ہے؟کیا یہ مناسب ہے؟کیا لمیٹیڈ ہے؟کیا اس کے ذریعے کسی کا استحصال تو نہیں ہو رہا ہے؟ جس مال میں شبہ ہو، اس راستے کو ترک کر دیں۔ ۳:شئیر بزنس۔
ایک سے زائد لوگ شامل ہوکر کچھ اصول و قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی کاروبار کی بنیاد ڈلتے ہیں،اسکو ”شیئر مارکٹ“ یا ”شیئربزنس“ کہتے ہیں۔جب ایمان والے یہ کریں تو اسلامی قوانین کو ضرور مد نظر رکھیں۔ اس تعلق سے ذیل میں دی گئی باتوں کا ہمیشہ خیال رکھیں۔
• بزنس کرنے کی جگہ،مادی سہولیات،شرائط،سامان اور دوسرے ذرائع کے بارے میں تمام پارٹنرس کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے۔
• بزنس میں ہونے والے نفع و نقصان کے متعلق ایک دوسرے کو اچھی طرح واقف کرانا۔
• آمدوخرچ،نفع و نقصان،قرض وغیرہ کے متعلق وقتا فوقتا ایک دوسرے کو بتاتے رہنا چاہیے۔ قابل تقسیم اشیاء برابری کے ساتھ تقسیم کرنا۔
• ہر معاملے کو قلمبند کرکے محفوظ رکھناضروری ہے۔
• کوئی بھی شخص بغیر کسی کو بتائے یا اندھیرے میں رکھ کر اکیلے مزید فائدہ حاصل نہ کریں۔
مال یااپنی محنت شیئر کاروبارمیں لگاتے وقت مذکورہ شرائط کو مانتے ہوئے اللہ تعالی کے احکامات پر چلنا بہت ضروری ہے۔
Sleeping partner اور working partner کو اپنی حصے داری ا ور ذمے داری کے بارے میں اچھی طرح سے واقفیت ہونا ضروری ہے۔یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ورکننگ پارٹنر بزنس کے بڑھ جانے کے بعد سلیپنگ پارٹنر س کو نکال دے۔یا سلیپنگ پارٹنر بزنس کو ترقی دینے والے ورکننگ پارٹنر کو نکال دے۔عمارت یا کمپنی کو رجسٹرڈ کرتے وقت اور شرائط لکھتے وقت دوسرے شرکاء کو نقصان پہنچانے والی چالاکی سے بچنا نہایت ضروری اور لازمی ہے۔
۴:عصرحاضرکاجوا:
گلف میں کام کرنے والا ایک شخص ایک دن اپنے دوست کے پاس کال کرکے اپنا غم سنانے لگا کہ:میرے گھر میں بیوی اور تین بچے ہیں۔میرا ایک بچہ گیارھو یں جماعت میں پڑھتا ہے۔کچھ دن قبل کچھ لوگ میرے گھر پر آکر یہ مطالبہ کرنے لگے کہ میں ان کا آن لائن فرینڈ ہوں، میں نے ان سے قرضہ لیا تھا، جس کو واپس لوٹانا ہے۔وہ بتانے لگاکہ میری بیوی نے مجھے بتائے بغیر اس کو پیسے دے کر واپس بھیج دیے۔ لیکن یہ معاملہ یہی ختم نہیں ہوا؛ بلکہ مزید کچھ لوگ آکر پیسوں کا مطالبہ کرنے لگے۔ جب ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تب گھر والوں نے مجھے بتایا۔
جب میں نے اسکی حقیقت جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک آن لائن گیم میں لگا ہوا ہے، پہلے وہ ایک اچھا اور محنت سے پڑھنے والا بچہ تھا، لیکن آن لائن گیم کے چکر میں وہ سست اور ناامید ہونے لگا۔ شروعات میں گیم کھیل کر اس نے کچھ پیسے کمائے۔ پھر اس کو مزید بڑھانے کے ارادے سے اس میں مسلسل لگا رہا جب اس کو بری طرح سے شکست ہوئی تو وہ قرضہ لے کر اس میں پیسے لگانے لگا۔جس کی وجہ سے اس نے مختلف جگہوں سے قرضہ لیا۔
Rummy, Qnet, Smartway, Dream11 وغیرہ،اس نئے دور میں اس طرح کے بہت سے آن لائن اور آف لائن گیم چل رہے ہیں۔ یہ سب جوا کے نئے نئے راستے ہیں۔ان تمام گیموں میں اپنا بہت کچھ برباد کرنے والے لوگ سماج میں موجود ہیں۔ وقت ،مال،عزت،طاقت اور ایمان کو نقصان پہنچانے والے اس طرح کے گیموں سے ہمیں دور رہنا چاہیے۔اس کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے۔ لوگوں کے درمیان کرپٹو کرنسی بہت مشہور ہے۔ اس میں کام کرنے والے یا اس میں پیسے لگانے والوں سے آپ کی ملاقات ضرور ہوئی ہوگی۔ان سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے تو بہت بڑی بڑی باتیں کریں گے۔اس میں لگے ہوئے کچھ لوگوں کے متعلق کروڑوں روپے کا مقروض ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ابھی یہی نصیحت کی جا سکتی ہے کہ اس قسم کی ساری چیزوں سے احتیاط برتیں، اسی میں ہمارے لیے بھلائی ہے۔
۵:تعلیمی فراڈ:
بچوں کی تعلیم کے لیے والدین کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔اپنے بچوں کے لیے مناسب کورس اور اچھے اداروں میں داخلہ دلانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ایسے مواقع کا فائدہ اٹھانے والے بہت سے گروپ سماج میں سرگرم ہیں۔ان کاکام غیر رجسٹرڈ کورس اوراداروں تک بچوں کو پہنچانا ہوتا ہے۔اس کے ذریعے وہ پیسے کماتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں فلاں کالج میں فلاں کورس (ایم،بی،بی،ایس وغیرہ)کے لیے داخلہ دلادوں گا، مجھے بس اتنا پیسہ چاہیے۔پیسہ لینے کے بعد کہیں گے: ”ابھی وہاں سیٹ فل ہوگئی ہے، اگلے سال کے لیے میں نے سیٹ بک کردی ہے“۔وہ پیسہ اپنے کام میں استعمال کرکے اگلے سال واپس کرتا ہے اور طالب علم کا ایک سال بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ کبھی پیسہ لے غائب بھی ہو جاتا ہے۔
ایک تجربہ: گلف میں رہنے والے ایک شخص نے اپنی بیٹی کی تعلیم کے لیے ایک شخص سے بات چیت کی۔اس نے کہاکہ آپ اپنے بچوں کو فلاں شخص سے ملنے کے کہیے وہ آپ کا کام کرسکتے ہیں۔جب اس کی بیوی اس سے ملنے جارہی ہوتی ہے، اسی دوران شوہر کے ایک دوست سے اس کی ملاقات ہوجاتی ہے۔وہ جس کالج میں جارہے تھے، وہ اس کالج کے بارے میں بہت اچھی طرح جانتے تھے۔دوست نے ان کو سمجھایا کہ: آپ چاہے کتنا بھی پیسہ دے دیں، وہاں سیٹ ملنی ناممکن ہے۔ یہ بات اپنے شوہر کو بتائی تو انھوں نے کہاکہ: یہ بات صحیح نہیں ہے۔ آ پ جا کر ایجنٹ سے ملو۔لیکن بیوی کو اس شخص پر شک ہوگیا۔ اس نے اسکول کے بارے میں مزید جانکاری حاصل کی تو معلوم ہوا کہ دس لاکھ روپیے دینے کے بعد بھی وہاں سیٹ ملنی ممکن نہیں ہے،تو اس نے پیسہ نہیں دیااور دس لاکھ روپیے برباد ہونے سے بچ گئے۔ایل،کے،جی سے لے کر اعلی سطح تک کی ڈگریوں میں داخلہ دلانے کے لیے مختلف طرح کی دھوکہ بازیاں چل رہی ہیں۔لوگوں کی مجبوریوں کا غلط فائدہ اٹھا کر پیسے کمانے کے لیے بہت سی خوبصورت اور مزین آفسیں بنا رکھی ہیں۔
۶۔ رفاہی بزنس:
بیماروں،کمزوروں اور ضرورت مندوں کو مدد پہنچانے کے لیے بہت ساری تنظیمیں سماج میں موجود ہیں۔ایسی تنظیموں کی ضرورت بھی ہے۔ لیکن کچھ لوگ اس میدان کا استعمال بھی پیسے کمانے کے لیے کررہے ہیں۔جھوٹے اشتہارات لگاتے ہیں،چھوٹی موٹی بیماریوں کو بڑی بناکر رقم اکھٹا کرتے ہیں۔اسپتال والوں کے ساتھ مل کر کمائی کا راستہ نکالتے ہیں۔ضرورت مندوں کی مدد کرنے والے لوگوں سے فائدہ اٹھا تے ہیں اور اچھے اچھے لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں میں کافی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ان مافیاؤں کی وجہ سے حقیقی ضرورت مند محروم نہیں رہنے چاہیے۔رفاہی کام کرنے والوں کو مالی لین دین میں بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔مستحقین کو ملنے والا حق، غیر مستحق لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہیے۔ اس کا خیال رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس میں بالکل کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔
قرض:
انسانوں کا اپنی ضروریات کے لیے قرض لینا عام بات ہے۔لیکن پوری زندگی قرض لے کر ہی گزارنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ سخت ضرورت کے موقع پر قرض لینے کی اجازت ہے۔ اگرقرض واپس لوٹانے کی نیت سے لیتے ہیں تو اللہ تعالی بھی اس میں مدد فرماتا ہے۔اگر واپس لوٹانے کی نیت نہیں ہے، تو وہ قرض اس کے سامنے ہمیشہ بوجھ بن کر سامنے آتا رہے گا۔اس لیے قرض سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔
قرضہ لینے والے مندرجہ ذیل باتوں پر دھیان دیں:
۱۔ قناعت یعنی جو اللہ نے دے رکھا ہے اس پر خوش رہنا سیکھیں۔بہت ضرورت پڑنے پر ہی قرض لیں۔
۲۔ جتنی ضرورت ہے اتنا ہی قرض لیں۔اس میں راؤنڈ فگر کرنے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جیسے کسی کو سات سو روپیے کی ضرورت ہے تو ایک ہزار لینا یا سات ہزار کی ضرورت ہے تو دس ہزار روپے قرض لینامناسب نہیں ہے۔
۳۔ قرض کی رقم لینے کی تاریخ اورواپس لوٹانے کی تاریخ لکھ کر رکھیں۔اور اس کے دو گواہ بھی ہونے چاہیے۔
۴۔ ضرورت پڑنے پر قرض اتناہی لینا چاہیے جتنا بآسانی لوٹا سکتے ہیں۔
۵۔ کسی وجہ سے مقررہ تاریخ پر قرض واپس نہیں کرسکتے ہیں تو قرض دار کو سمجھانا اور اس سے وقت لینا ضروری ہے۔
۶۔ صدقہ و خیرات وغیرہ دینے سے بھی زیادہ قرضہ واپس کرنے کو ترجیح دینا ضروری ہے۔
قرض دینے والے مندرجہ ذیل باتوں پر دھیان دیں:
۱۔ ہاتھ میں اگر زیادہ پیسہ ہو تو قرض مانگنے والوں کو قرض کی بجائے صدقہ دینے کی کوشش کریں۔
۲۔ جس کو قرض دیتے ہیں، اس سے کسی منافع کی امید اور لالچ نہ رکھیں۔
۳۔ قرض دیتے وقت شرائط، دینے اور واپس لوٹانے کی تاریخ اور رقم کی تعداد سب اپنے پاس لکھ کر رکھیں۔
۴۔ قرض دینے والے کو اگر یہ معلوم ہوکہ مقروض کے لیے قرض لوٹانا فی الحال مشکل ہورہا ہے تو اس کو مناسب مہلت دینا چاہیے۔
اختتام:
بھائیو! …… جھوٹ اور دھوکے کے ذریعے جو مال ہم جمع کررہے ہیں،وہ کس کے لیے ہے؟۔
اگراپنے لیے ہے تو یہ یاد رکھیں کہ ہم صرف اتنا ہی کھاسکتے ہیں جس سے ہمارا پیٹ بھر جاتا ہے۔ ایک وقت میں ایک ہی کپڑا پہن سکتے ہیں۔ ہمیں سونے کے لیے بھی اتنی جگہ کافی ہے جتنی ایک شخص کو چاہیے ہوتی ہے۔اگر بیمار ہوجائیں تو بہت سے کھانوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔بہت سی لذیذ چیزوں کا پرہیز کردیا جاتا ہے۔مال کمانے کی بھاگ دوڑ میں ہم اپنے خاندان،سماج اور امت کو بھول جاتے ہیں۔ یہ کسی بی انسان بالخصوص کسی ایمان والے کے لیے مناسب نہیں ہے۔
اگر آپ اپنے خاندان یا آنے والی نسلوں کے لیے کمارہے ہیں تو کیا آپ کو معلوم ہے وہ اس مال کو کیسے خرچ کریں گے؟۔
”وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ“۔
جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ جمع کر تے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں درناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے۔(توبہ:٣٤)
کل قیامت کے دن ابن آدم کے قدم اس وقت تک نہیں ہل سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے۔(۱) عمر کے متعلق پوچھا جائے گا کہ: کہاں گنوائی؟۔ (۲) جوانی کے بارے میں سوال ہوگا کہ: کہاں ضائع کی؟۔ (۳)علم کے بارے میں سوال ہوگاکہ: اس پر کتنا عمل کیا؟۔(٤، ۵)مال کے بارے میں سوال ہوگا کہ:کہاں سے کمایا اورکہاں خرچ کیا؟۔(رواہ الترمذی، صحیح الترغیب و الترہیب: ۱/ ٣٠)
اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر ان سب کی وجہ ایک ہی ہے ”مالی لالچ“۔ ”مال کی لالچ“ انتہائی خطرناک اور مہلک مرض ہے۔ اس سے مکمل طور پر احتراز کریں اور قضاء قدرت پر یقین رکھیں۔ حلال اور صحیح طریقے سے مال کمائیں اور قناعت والی زندگی گزاریں۔ ہمیں اس کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم جو بھی کمارہے ہیں اور جہاں بھی خرچ کررہے ہیں،اس کا حساب اللہ تعالی کے سامنے دینا ہوگا۔اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارے اور ہمارے خاندان کے ہاتھ میں ایک بھی روپے ناجائز نہ آنے پائے۔
آئیے! اب سے ہم یہ طے کرتے ہیں کہ مالی معاملات میں ایسا کچھ نہیں کریں گے جس سے ہمیں سماج اور اللہ کے سامنے رسوا ہونا پڑے۔ہم عزم کرتے ہیں کہ آمدنی اور خرچ ایمانداری سے کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ کی دھمکی بھری ہدایت ہے: ”خبردار! حرام رزق سے پلا بڑھا ہوا جسم جہنمی ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے“۔(رواہ البیہقی، مشکاۃ: ۲/ ٨٤٨)
اللہ تعالی حرام کمائی اور حرام غذاء سے ہماری اور ہماری نسلوں اور پوری امت کی حفاظت فرمائے۔
وآخردعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین
Post a Comment