اپنی اولادکوآگ سےبچائیے
#خطاب_جمعہ نمبر: 103
🎯 اپنی اولاد کو آگ سے بچائیے !
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد!اعوذباللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم وَوَصّٰی بِھَآاِبْرٰھِیْمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوْبُ ٰیبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ 0 اَمْ کُنْتُمْ شُہَدَآئَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ، اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ، قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَاِلٰہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰھًا وَّاحِدًا، وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ
اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں( اور اگلی نسل میں) یعقوب نے اپنی اولاد کو اسی بات کی وصیت کی( اور اپنے اپنے فرزندوں سے کہا کہ) میرے بیٹو! یقینا اللہ نے تمہارے لئے یہی دین چنا ہے سو تم نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ مسلمان ہو۔ کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت نزدیک آ گیا۔ اور انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا ،میرے (دنیا سے رخصت ہوجانے کے ) بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ کہنے لگے ہم آپ کے اور آپ کے باپ دادا ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے وہی معبود جو اکیلا ہے اور ہم اسی کے (حکم) کے آگے سر جھکانے والے ہیں ۔(سورہ بقرہ آیت ۱۳۲ ،۱۳۳)
انسان پر جیسے دوسروں کے حقوق ہیں ، اسی طرح اس پر خود اپنی ذات کا ، اپنے بال بچوں اور اپنے عزیزوں کا بھی حق ہے ؛ بلکہ یہ حق نسبتاً زیادہ اہم اور قابل توجہ ہے اور آخرت میں اس کے بارے میں جواب دہی بھی زیادہ ہے ، انسان پر اس کی ذات کے اور اس کے اہل وعیال کے کیا حقوق ہیں اور اپنے زیر پرورش لوگوں کے تئیں اس پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ؟ قرآن و حدیث میں جا بجا اس کا ذکر ہے ، یہ حقوق انسان کی مادی ضروریات سے متعلق بھی ہیں اور اس کی دینی اور اخروی حاجات سے متعلق بھی اور یقینا اس کی دینی حاجات سے متعلق حقوق زیادہ اہم ہیں ؛ کیوں کہ مادی ضرورتوں کا تعلق تو ایسے مستقبل سے ہے جو چند سالہ ہے اور جس کی انتہا قبر کی منزل پر ہو جاتی ہے ؛ لیکن دینی اور اُخروی ضرورتیں ایسے مستقبل سے متعلق ہیں ، جن کی کوئی نہایت نہیں ، اس لئے ایک صاحب ِایمان جو آخرت میں جواب دہی کا احساس رکھتا ہو اور جو اس دنیا پر یقین کرتا ہو ، یقینا اس وسیع اور نہ ختم ہونے والے مستقبل سے بے پرواہ نہیں ہوسکتا ۔
قرآن مجید نے سورہ بقرہ میں حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام کا تذکرہ کر کےاہل ایمان کو اسی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچائیں : ’’قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَ اہْلِیْکُمْ نَارًا‘‘ (التحریم : ۶) یہ آگ سے بچانا کیونکر ہوگا ؟ ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ ، ایمان کیا ہے ؟ قرآن و حدیث میں جن جن باتو ںکا ذکر آیا ہے ، ان سب کو ماننا اور بے کم و کاست ان کا یقین کرنا ، ایمان صرف کلمہ پڑھ لینے کا نام نہیں ، اگر ایک شخص اپنی زبان سے توحید کا اقرار کرتا ہو اور قرآن کے کسی حکم کا انکار بھی ، رسول اللہ ﷺپر ایمان رکھتا ہو ؛ لیکن آپ ﷺکی کسی سنت کا مذاق اُڑانے سے بھی گریز نہ کرتا ہو ، آپ کو نبی مانتا ہو ؛ لیکن آپ ﷺکے بعد کسی اور نبی کے آنے کا قائل ہو، تو بظاہر وہ صاحب ایمان محسوس ہوتا ہے ؛ لیکن حقیقت میں وہ کفر کی راہ پر ہے ، ایمان کا مسئلہ بہت نازک ہے ، بعض اوقات انسان ہنسی مذاق میں ، غیظ و غضب اور ضدو عناد میں ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جو اسے دولت ِایمان سے محروم کر دیتی ہیں اور اسے خبر تک نہیں ہوتی ، ظاہر ہے اس نادانستہ خسران و محرومی سے بچنے کے لئے ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے علم کے زیور سے آراستہ او راحکام دین سے واقف ہونا ، بے علمی اور نا آگہی و جہالت و نادانی انسان کو راہِ حق سے دور لے جاتی ہے اور گمراہی کے راستہ پر ڈال دیتی ہے ۔
آگ سے بچنے کے لئے دوسری ضروری چیز عمل صالح ہے ، عمل صالح کے معنی اچھے کام کے ہیں ، کوئی کام اس وقت اسلام کی نگاہ میں عمل صالح بنتا ہے ، جب اس میں تین باتیں پائی جائیں ، اول : وہ حکم خداوندی کے مطابق ہو ، دوسرے : اس عمل کو رسول اللہ ﷺکے طریقہ پر انجام دیا جائے ، تیسرے : اس کا مقصد اللہ کی خوشنودی اور رضاکا حاصل کرنا ہو ، شہرت وناموری ، عہدۂ و جاہ اور دنیا طلبی مقصود نہ ہو ، اگر یہ تینوں باتیں جمع ہوں تو وہ عمل صالح ہے اوران میں سے کوئی ایک بات بھی نہ پائی جائے ، تو وہ عمل صالح نہیں ، ظاہر ہے کہ عمل صالح کو جاننے اور اس کو اختیار کرنے کے لئے قدم قدم پر علم کی ضرورت ہے ، ایک وضو اور نماز ہی کو دیکھ لیجئے ، کہ اس سے متعلق کتنے مسائل و احکام ہیں ؟ انسان بوڑھا ہوجائے اور اپنی پوری عمر طے کر لے ، پھر بھی ان مسائل کا احاطہ نہیں کرپاتا ، ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے ، اہل علم سے استفسار کرنا پڑتا ہے ؛ بلکہ خود اصحابِ علم بھی ایک دوسرے سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ، فقہ کا ایک سمندر بیکراں ہے ، جو ان ہی اعمال صالحہ کی تشریح و توضیح سے عبارت ہے ۔
غرض انسان کے اپنے آپ کو اور اپنے بال بچوں کو آخرت کی آگ سے بچانے اور جہنم کی بھٹی سے محفوظ رکھنے کا واحد راستہ ایمان اور عمل صالح ہے اور ایمان ہو یا عمل صالح ، جب تک دین کا علم نہ ہو ، احکامِ شریعت سے آگہی نہ ہو ، کتاب و سنت سے واقفیت اور دین کا فہم نہ ہو، حاصل نہیں ہوسکتا اور ایمان و عمل کا حق جہل و ناآگہی کے ساتھ ادا نہیں کیا جاسکتا ۔اس لئے ہر مسلمان کے لئے اپنی ضروریات کے مطابق علم دین کا حصول فرائض میں سے ہے ، رسول اللہ ﷺنے بہ وضاحت ارشاد فرمایا کہ : علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ، طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم، شاید ہی دنیا کے کسی مذہب میں علم کی یہ اہمیت ظاہر کی گئی ہو ، آپ ﷺکے اس ارشاد میں اور کوئی علم داخل ہو یا نہ ہو ، علم دین تو ضرور ہی داخل ہے ؛ کیوںکہ یہ ایسا فریضہ ہے کہ جس کے بغیر دین کا کوئی فرض ادا ہو ہی نہیں سکتا ، وضو اس لئے فرض ہے کہ اس سے نماز ادا کی جائے ، حرمین شریفین کا سفر اس لئے فرض ہے کہ حج کی ادائیگی ہوسکے ، تو علم سے تو تمام ہی فرائض متعلق ہیں ، نماز و روزہ حج و زکوٰۃ ، نکاح و طلاق ، حلال وحرام ، خلوت و جلوت اور رزم و بزم ، کونسی جگہ ہے اور کونسا موقع ہے ، جہاں انسان علم کا محتاج نہ ہو ، اس لئے علم دین اہم ترین فریضہ ہے ، ایسا فریضہ کہ جس پر تمام فرائض کی ادائے گی منحصر ہے ۔اس لئے قرآن مجید نے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچانے کا حکم دے کر بالواسطہ علم کی طرف متوجہ کیا ہے ۔
ملک کے موجودہ حالات میں اپنے بچوں کوعلم دین سے آراستہ کرنے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے ، اس لیے کہ ہمارے سرکاری نظام تعلیم میں آزادی کے بعد ہی سے ہندو تہذیب کی چھاپ ڈالنے کی کوشش رہی ہے ؛ اور اب تو یہ کوشش بے لباس اور تیز رفتار ہے ، مسلمان بچوں کو مشرکانہ فکر سے مانوس کیا جارہا ہے ، دیویوں اوردیوتاؤں کا تقدس ان کے ذہنوں میں بٹھایا جارہا ہے ، ہند و بزرگوں کی عظمت ان کے قلوب میںراسخ کی جارہی ہے ، مسلمانوں کی تاریخ کو ڈاکوؤں اور لٹیروں کی تاریخ کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے ؛ تاکہ مسلمان بچے احساسِ کمتری میں مبتلا ہوں ، یہاں تک کہ پیغمبر اسلام ﷺکی سیرتِ مبارکہ اور اسلام کے قرنِ اول کی تاریخ کو بھی مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے ؛ تاکہ پیغمبر اسلام ﷺاور آپﷺکے رفقاء کی عظمت نئی نسل کے دل سے نکل جائے ۔بھارت ایک سیکولر ، کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی ملک ہے، اسی اصول پر ہمارے ملک کا دستور مرتب ہوا ہے، اسکولوں کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی اس کا لحاظ رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے، دستور ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں کسی خاص مذہب کی تعلیم دی جائے، یا کسی خاص گروہ کے عقیدہ پر مبنی تقریبات منعقد کی جائیں، مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ موجودہ حکومت اس اصول سے ہٹتی جا رہی ہے، اور وہ ملک کے تمام طبقات پر اکثریتی فرقہ کی سوچ اور روایت کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اسی کا ایک مظہر یہ ہے کہ حکومت ہند کے انڈر سکریٹری وزارت تعلیم نےآنے والے ۷۵؍ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر ۳۰؍ ریاستوں میں سوریہ نمسکار کا ایک پروجیکٹ چلانے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں ۳۰؍ ہزار اسکولوں کو پہلے مرحلہ میں شامل کیا جائے گا، یکم جنوری ۲۰۲۲ء سے ۷؍ جنوری ۲۰۲۲ء تک کے لئے یہ پروگرام ترتیب دیا گیا ہے، اور ۲۶؍ جنوری ۲۰۲۲ء کو سوریہ نمسکار پر ایک میوزیکل پرفارمینس کا بھی منصوبہ ہے، ریاست آندھر ا پردیش کے تمام ضلعی تعلیمی افسران کو مرکزی حکومت کی طرف سے اس کی ہدایت دی گئی ہے، یہ یقینی طور پر غیر دستوری عمل ہے، اور حب الوطنی کا جھوٹا پرچار ہے۔یہ کہنا کہ ’’نماز اور سوریہ نمسکار ‘‘ ایک ہی جیسے ہیں یعنی نماز کے کچھ طریقے سوریہ نمسکار اور یوگا کے آسن جیسے ہیں۔ یہ مکمل مغالطہ آمیزی اور کھلی فریب کاری ہے ،ـ ایک بات یاد رکھیں نماز خالق کی عبادت ہے اور سوریہ نمسکار اور یوگا جیسی دیگر عبادتیں برادران وطن کی خود ساختہ عبادتیں اور سورج، شجر و حجر جیسی مخلوقات کی پرستش کے طریقے ہیں، جو بھارت میں رہتے ہوئے شجر و حجر اور زمین و فلک وغیرہ کی عبادت کر رہے ہیں وہ جمہوری آئین کے تحت شرک و کفر کے مجاز ہیں، البتہ مسلمانوں کو اس مشرکانہ فعل پر زور نہیں ڈالا جاسکتا۔ قرآن میں وضاحت کے ساتھ حکم ہے ’’تم سورج اور چاند کا سجدہ نہ کرو؛ بلکہ جس نے ان سورج چاند کو پیدا کیا ہے اس کا سجدہ کرو‘‘ ؛ لہذا یوگا کو نماز جیسی ایک اہم عبادت کے مشابہ قرار دینا کھلی مذہبی انتہا پسندی اور حقیقت سے صرف نظر ہے ـ ،مسلمان صرف اور صرف خالق کی عبادت کرسکتا ہے ؛کیوں کہ انہیں ان کی مقدس کتاب اور رسولوں کی تعلیمات سے یہی فرمان ملا ہے کہ وہ ایک خدا کی عبادت کریں، وقت کے جابر وظالم حکمرانوں کے سامنے سجدہ ریز نہ ہوں؛ لیکن ملک میں جو حالات بنائے جارہے ہیں، جس طرح سے مذہب اسلام میں دخل اندازی کی کوششیں تیز ہورہی ہیں اس سے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور مسلمانوں کا وہ طبقہ جو دین سے نابلد و نا آشنا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ حکومت کے دام فریب میں آکر یوگا، سوریہ نمسکار اور سہوا نماز کو ایک جیسا سمجھ کر اپنے دین حنیف سے ہٹ جائے۔ یوگا ایک ورزش ہے، اور سوریہ نمسکار بھی ایک ورزش ہے یا ایک حقیر مخلوق کی پوجا ہے۔جب کہ نماز ورزش نہیں ہے صرف اور صرف عبادت ہے یہ الگ بات ہے کہ سائنسی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو پنج وقتہ نمازی ہوتے ہیں ان کی صحتیں اچھی ہوتی ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نماز کو سوریہ نمسکار اور یوگا کے مقابل کھڑا کردیاجائے۔ نماز صرف اور صرف خالق کی عبادت ہے اور اس کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا ہے جو نماز نہیں پڑھتا ہے وہ اسلام کے منافی عمل کرتا ہے اور خدا و رسول کے احکام سے روگردانی کا مرتکب ہوتا ہے آخر ت میں اسے نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے سزا بھگتنی ہوگی؛ لیکن اگر جو یوگا نہ کرے، جو سوریہ نمسکار نہ کرے اس کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا؛ بلکہ یوگا اور سوریہ نمسکار نہ کرنے کی صورت میں انعامات کے مستحق ہوں گے۔
چونکہ سوریہ نمسکار بھی سورج کی پوجا کی ایک شکل ہے،اور اسلام اور ملک کی مختلف اقلیتیں نہ سورج کو معبود سمجھتی ہیں اور نہ اس کی پرستش کو درست جانتی ہیںاس لیے مسلمان بچوں کے لئے سوریہ نمسکار جیسے پروگرام میں شرکت قطعاََ جائز نہیں ہے ان کے لیے اس طرح کے پروگراموں میں شرکت سے بچنا ضروری ہے۔سر پرست حضرات کو اس سلسلے میں توجہ دینے اور اپنے بچوں کے ایمان کے تحفظ کے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت ہے،بطور خاص مسلمانوں کے لیے ضروری ہےکہ وہ اپنی اولاد کے لیے دین کی بنیادی تعلیم کا نظم کریں،دینی تعلیم کا ایک درجہ تو ضروریاتِ دین کی تعلیم کا ہے ، یہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے ، ہمارے جو بچے عصری درسگاہوں میں زیر تعلیم ہیں ، ان کے لئے بھی قرآن مجید کا باتجوید ناظرہ ، کچھ سورتوں کا حفظ ، رسول اللہ ﷺکی سیرت ، ضروری فقہی مسائل اور شب و روز کے مختلف احوال سے متعلق جو ادعیہ واذ کا ر منقول ہیں ، ان کا یاد کرانا تو ہر مسلمان بچے کے لئے ضروری ہے ، اب اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ضروری ہوگئی ہے کہ ان کو اسلام کی اور مسلمانوں کی تاریخ بھی پڑھائی جائے ؛ تاکہ وہ احساسِ کمتری سے بچ سکیں اور اسلام پر مغربی مصنفین اوران سے متأثر ہو کر مشرق کے اہل علم جو اعتراضات کرتے ہیں ، ان کے جواب میں بھی رہنمائی کی جائے ؛ تاکہ غلط فہمیوں اور پروپیگنڈوں کے دامِ ہم رنگ ِزمین سے اپنے آپ کو بچاسکیں۔
علم دین حاصل کرنے کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ اُمت میں کچھ لوگ قرآن و حدیث کا تفصیلی علم حاصل کریں ، کتاب و سنت پر ان کی گہری نگاہ ہو، فقہ اسلامی پر ان کی وسیع نظر ہو ۔ایمانیات اور عقائد کی گہرائیوں تک ان کی رسائی ہو ، ہر عہد میں اسلام کے خلاف جو فتنے کھڑے ہوں ، وہ ان کے مقابلہ کی صلاحیت کے اہل ہوں ، وہ اسلام کی فکری سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں اور اپنے عہد کے پیدا ہونے والے مسائل کو فراست ِایمانی کے ساتھ کتاب وسنت کی روشنی میں حل کریں ، یہ اُمت پر فرضِ کفایہ ہے ، جیسے کسی ملک کی سرحد پر فوج کا دستہ کھڑا رہتا ہے ، بظاہر ایسا لگتا ہے ، کہ اس پر مفت میں کثیر اخراجات ہو رہے ہیں ؛ لیکن حقیقت میں وہ ملک کے سب سے بڑے محسن اور اس کی سلامتی کے ضامن ہیں ، یہی مقام فکری اعتبار سے کسی بھی سماج میں علماء ِدین کا ہے ، یہ ہمارے معنوی وجود ، ہمارے فکری تشخص اور ہمارے تہذیبی امتیازات کے محافظ ہیں ، کسی سماج میں اگر کوئی عالم نہ ہو تو کافرانہ طاقتیں علانیہ یا نادانستہ ان کو اُچک سکتی ہیں ، عالِم ممکن ہے عمل کے اعتبار سے کوتاہ ہو ؛ لیکن انشاء اللہ وہ کسی گمراہی کے بارے میں غلط فہمی میں نہیں پڑسکتا اور پروپیگنڈہ سے متاثر نہیں ہو سکتا ؛ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کا کوئی خاندان ایسا نہ ہو جو عالم دین سے خالی ہو ، یہ انشاء اللہ اپنے پورے خاندان کے لئے حفاظت ِدین کی ضمانت ہوگا ۔
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین
🎁 سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
Post a Comment