تذکرہ ایک منفرد کتاب کا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
تذکرہ، ایک منفرد کتاب کا
از :ابو سعد چارولیہ
___________________________
کتاب:یہ شیشے بادۂ مضمون کے
مؤلف:حضرت اقدس مولانا مفتی محمد حفظ الرحمن صاحب سملکی دامت برکاتہم
(استادِ تفسیر و حدیث و فقہ و قاضئ جامعہ ڈابھیل)
صفحات:٣٧٠
قیمت:١٤٠
ناشر: شعبۂ تقریر و تحریر، جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل-سملک، نوساری،گجرات، انڈیا
کتاب کے لیے رابطہ نمبر:
مولوی سعید بزرگ :7698160639
مفتی عبداللہ مانگرول:9913319190
-----------------------------
کتاب کا نام ہی ایسا انوکھا، منفرد اور جاذب ہے کہ تنہا نام ہی قاری کو مقناطیس کی طرح کھینچ لاتا ہے، پھر کتاب کے نام کے ساتھ اگر صاحبِ کتاب کا نام بھی اپنے تئیں ایسی جاذبیت رکھتا ہوتو پھر کون ہے جو قاری کو اس کی جانب لپکنے سے روک سکے۔
کتاب سے پہلے صاحبِ کتاب کا مختصر تعارف ملاحظہ کرلیجیے :
نام آپ کا محمد حفظ الرحمن ہے، سملک گاؤں کی طرف نسبت کرتے ہوئے"سملکی"کہلاتے ہیں، حافظ، عالم، مفتی، قاری اور قاضی ہونے کے ساتھ کامیاب مدرس، شیریں بیاں مقرر اور باوقار مؤلف بھی ہیں ۔بولتے ہیں تو موتی رولتے ہیں، بات کرتے ہیں تو پھول جھڑتے ہیں، درس کی مخصوص فضا ہو یا اصلاحی بیان کا عمومی پلیٹ فارم، فتوی نویسی و قضا کی نازک و لطیف پگڈنڈی ہو یا تالیف و تصنیف کی پُر خطر راہ؛ خوبصورت الفاظ اور حسین تعبیرات کا ایسا تانتا بندھتا ہے کہ قاری مبہوت اور سامع مدہوش ہوکر رہ جاتا ہے۔ وعظ و تدریس کے دوران نکھری، ستھری، دُھلی دُھلائی زبان کے ساتھ منفرد اندازِ بیاں اور مناسب اشارے کنایے ایسا غضب ڈھاتے ہیں کہ بے ساختہ مجمع عش عش کر اٹھتا ہے۔ مجموعۂ علم و عمل ایسا کہ ان کی صحبت سوتوں کو جَگتا اور جَگتوں کو بھاگتا کردیتی ہے، فقہ میں مہارت و پختگی کا یہ عالم کہ تقریر کے ہر جملے اور تحریر کی ہر سطر سے فقاہت و فراست ٹپکتی دکھائی پڑتی ہے؛ الغرض! مؤلف محترم "یکتائے روزگار" کہے جانے کے لائق ہیں ۔طریقت میں حضرت مولانا قمر الزماں صاحب ندوی دامت برکاتہم العالیہ جیسے رہبر و رہنما نے ان کی شخصیت میں چار نہیں ؛ آٹھ چاند لگارکھے ہیں ۔چشمِ بد دور!
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
اب کتاب کا تعارف ملاحظہ کیجیے :
کتاب کا نام ہے :یہ شیشے بادۂ مضمون کے، یہ انوکھا نام دراصل اکبر الہ آبادی کے ایک شعر سے ماخوذ و مستفاد ہے جو کتاب کا دوسرا صفحہ کھولتے ہی آپ کو نظر آجائے گا ۔
کتاب :دو تقریظ، ایک پیش لفظ اور چھ ابواب پر مشتمل ہے، پہلی تقریظ" کلماتِ بابرکت "کے عنوان سے محترمی و مکرمی حضرت اقدس مولانا احمد بزرگ صاحب سملکی - متعنا اللہ بطول حیاتہ مع الصحۃ و العافیۃ- (مہتمم جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل سملک) کی ہے، "ضابطے" کے اعتبار سے آنجناب، مؤلفِ محترم کے ماموں اور جامعہ کے مہتمم ہیں مگر "رابطے" کے اعتبار سے مؤلف کے لیے ایک شجرِ سایہ دار اور مادرِ مشفق سے بڑھ کر ہیں، خدا بہ عافیت ان کا سایۂ عاطفت قائم و دائم رکھے، آمین! دوسری تقریظ مشفقی و مربی حضرۃ الاستاذ حضرت اقدس مفتی ابوبکر صاحب مدظلہ العالی کے قلمِ حقیقت رقم سے ہے، آں موصوف، مؤلفِ محترم کے رفیقِ تدریس و رفیقِ کار ہونے کے ساتھ ساتھ جامعہ کے ہر دل عزیز استاد اور اس کے شعبۂ تربیت کے روحِ رواں ہیں ۔ پیش لفظ بہ عنوان "کچھ اس مجموعے سے متعلق" مؤلفِ محترم کے خامۂ عنبر شمامہ کا ثمرہ ہے۔ چھ ابواب میں کُل انچاس تقریریں ہیں، جن میں کی ہر تقریر دوسری سے بڑھ کر ہے؛گویا کتاب کے " نام" کی طرح "کام" بھی  جداگانہ ہے ۔مواد و ترتیب، عنوان و اشعار، طباعت و کتابت؛ ہر اعتبار سے یہ کتاب بازار میں دستیاب تقاریر کے مجموعوں سے ہزار گنا بہتر ہے ۔
جاذبِ نظر  تزئین کاری، دیدہ زیب سرِ ورق، حسین کلرنگ طباعت، عمدہ کاغذ اور مستحکم جلد کے علاوہ اس کتاب کی درجِ ذیل خصوصیات ہیں :
(١)بازار میں پائی جانے والی عام کتبِ  تقاریر کے مقابلے میں ذرا ہٹ کر اس کا نام رکھا گیا ہے، عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ طلبہ کے لیے تیار کی گئی کتبِ تقاریر کا نام اسم فاعل سماعی کی رہینِ منت ہوتا ہے: درد انگیز و دل کش سے لے کر ایمان افروز و باطل شکن تک ایک لمبی فہرست ہے جن میں سے معیاری کتاب چننا ایک مبتدی طالب علم  کے لیے دردِ سر سے کم نہیں، مؤلفِ محترم کا رائج چلن سے ہٹ کر نام تجویز کرنا ان کی منفرد فکر کا غماز اور ان کے جداگانہ عزم و حوصلے کا شاہکار ہے ۔
(٢)ایک فقیہ ہونے کے ناطے ان تقریروں میں جابجا شرعی حِکَم و مصالح اور  فقہی جزئیے  اس خوبصورتی کے ساتھ سجے ہوئے ہیں کہ ہر جگہ قاری اکتانے کے بجائے لطف لے کر آگے بڑھتا ہے، ذرا "معاشرے کا زہریلا ناسور؛ سوشل میڈیا" کے تحت اس ایک اقتباس پر نظر ڈالتے چلیے:
"اس پر مستزاد یہ کہ سوشل میڈیا نے" نسبی رشتوں" میں فتور اور" ڈیجیٹل ریلیشنوں" میں تیزی پیدا کرنے بہت اہم رول ادا کیا ہے ۔ آج سے پہلے فقہی کتب میں" سببی "رشتوں کے ذیل میں" مولی الموالات و مولی العتاقہ" ہی کی مثالیں سننے کو ملتی تھیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا کے اس نظامِ نَو نے اس میں ایک تیسرے رشتے کا اضافہ کیا ہے اور وہ ہے :ڈیجیٹل ریلیشن، خود ساختہ رشتے داری، منہ بولے ماں باپ! منہ بولے بھائی بہن! منہ بولے انکل آنٹی!"
اس قسم کے دسیوں اقتباسات ہیں جو آپ کو فقہ کی سیر کرانے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے رِستے زخموں سے بھی روشناس کراتے ہیں ۔
(٣)ترتیب اس کتاب کی ایسی جداگانہ ہے جو آج تک طلبہ کے لیے تیار کی گئی کتبِ تقاریر میں کہیں نظر سے نہیں گذری، ترتیب کیا ہے! ترتیب بھی مؤلف محترم کے "ہدایہ و بدائع الصنائع" سے عشق کا ایک نمونہ اور ان کے فقہی ذوق کا آئینہ ہے : کُل انچاس تقریروں کو چھ ابواب میں تقسیم کررکھا ہے، پہلا باب:سیرت النبی کے نام سے ہے ، دوسرا:مذہبیات کا ہے، تیسرے باب: کا عنوان علمیات ہے، چوتھا باب :فقہیات سے موسوم ہے، پانچواں :سیاسیات سے معَنوَن ہے  اور چھٹا اور آخری باب:اصلاحِ معاشرہ کا قائم کیا ہے۔
(٤)عناوین بھی اس کتاب کے ممتاز ہیں، ہمارا دعوی ہے کہ فہرست پر ایک نظر ڈالتے ہی صاحبِ ذوق طالب علم اسے اپنی ضروری کتابوں میں شامل کرنے پر مجبور ہوگا؛کیوں کہ بیشتر عناوین معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل اور سماج کے رِ ستے ہوئے ناسور ہیں؛ جن کے ذریعے مؤلفِ محترم نے "تیربہ ہدف" علاج کی کوشش کی ہے۔ مشکے از خروارے چند عناوین ملاحظہ فرمائیے :
ارتداد کا بڑھتا ہوا سیلاب اور ہماری ذمے داریاں
ہندو اِزم
یہود و ہنود :ایک سکّے کے دو رخ
مغربی تعلیم کی زہرناکی اور اس کا تریاق 
مکاتب کا نظام:ایمان و عقائد کی حفاظت کا دوسرا نام
زکاۃ:اسلام کا ایک عظیم اور پاکیزہ مالیاتی فلسفہ
اسلام اور دیگر ادیان کا نظامِ طلاق :ایک تقابلی جائزہ
اوقاف میں خُرد برد
معاملاتی احکام کی اہمیت اور ہماری بے اعتدالی
ہندوستان کا محکمۂ عدلیہ :کسوٹی کی ترازو پر 
دنیا میں مہنگائی کا بحران اور اس کے اسباب
اسلامی معاشرے میں دارالقضا کی افادیت
سود خوری کی تباہ کاریاں
تصویر کشی کی شناعت
انٹرنیٹ اور اس کے شعبۂ ٹک ٹاک کی تباہ کاریاں 
ہجومی تشدد(مآب لنچنگ) 
سوشل میڈیا؛ کتنا مفید کتنا مضر؟ 
ویڈیو گیمز اور غیر اسلامی ایپس کی تباہ کاریاں
کیا واقعی جِم خانے اسلامی معاشرے کے لیے دردِ سر ہیں 
(٥) ایسے سلگتے عناوین ہونے کے باوجود آپ کو لب و لہجہ کہیں بھی معذرت خواہانہ نہیں ملے گا،مغرب سے مقابلہ ہو یا مشرق سے، سامنے یہود ہو یا ہنود، طبقہ دین دار کہے جانے والوں کا ہو یا دنیا داروں کا؛ مجمع اپنا ہو یا غیروں کا؛ مؤلف محترم کا قلم بے باک و دو ٹوک انداز میں حق گوئی کا فریضہ انجام دیتا ہوا نظر آئے گا، کتاب میں اسلامی احکام پر تصلب و اعتماد کی میخیں جابجا اس طرح گاڑ دی گئی ہیں کہ میڈیا کا تندوتیز طوفان بھی اسے اپنی جگہ سے نہیں ہلاسکتا ۔
(٦)اس کتاب کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ طلبہ کی تقریروں میں خطاب کے لیے کام آنے والے ندائیہ جملے، گھسے پٹے استعمال کرنے کے بجائے نئے نئے تراشے اور خراشے گئے ہیں، اس کی بھی جھلک دیکھتے جائیے:
رہروانِ قافلۂ اسلام! 
جاں نثارانِ خیر الانام! 
حاملانِ علم و حلم! 
ربانی علوم کے پاسبانو! 
سننِ ہُدی کے پروانو! 
دشتِ علم و عمل کے بے لوث مسافر! 
مغربی طوفان کے خلاف سینہ سپر سالارو!
طاغوتی جنود کے قلب پر ٹوٹ پڑنے والے سپاہیو! عمائدین ِ شریعتِ غرا!پاسبانانِ ملتِ بیضا!
 امراضِ امتِ محمدیہ کے چارہ سازو! 
اساطینِ علم و فضل! تیشہ زنان بر لشکرِ کذب و جدل! 
ظلمت خانۂ دل میں ضوفشاں قندیلو! 
غرض یہ کہ ان ندائیہ جملوں اور خطابی صیغوں میں جمال بھی ہے اور جلال بھی،مظہرِ غیرت و حمیت بھی ہے اور مظاہرۂ صبر و استقلال بھی،  حکمت بھی ہے اور ہمت بھی، جوش بھی ہے اور ہوش بھی۔سچ پوچھیے تو کوئی طالب علم اس کتاب سے صرف ندائیہ جملے ہی یاد کرلے تب بھی فصاحت و بلاغت کے میدان میں وہ بہتوں سے گوئے سبقت لے جاسکتا ہے ۔
(٦)ہر عنوان کی مناسبت سے خطبے میں قرآن کریم کی متعلقہ آیت لکھنے کا التزام کیا گیا ہے، کیوں کہ قرآن کریم ہی وہ لازوال کتاب ہے جس سے ایک شعلہ فشاں خطیب و شیریں بیاں واعظ اپنی غذا پاتا ہے ۔
(٧)کہتے ہیں کہ کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے اس زبان کے معتد بہ اشعار کا ازبر ہونا ضروری ہے، کتاب ہذا چونکہ تقریر سیکھنے والے طلبہ کے لیے مرتب کی گئی ہے؛ اس لیے ہر تقریر میں اشعار کو بھی خصوصی طور پر شامل کیا گیا ہے۔مؤلف محترم؛ مشہور شاعر و حکیم، نباضِ امت:جناب اکبر الہ آبادی کے عارفانہ و ناقدانہ کلام سے خصوصی نسبت و مناسبت رکھتے ہیں؛ اس لیے آپ کو ان تقریروں میں جابجا اکبر الہ آبادی کے اشعار نگینے کی طرح جڑے ہوئے بھی نظر آئیں گے اور نشتر کی طرح چبھے ہوئے بھی، اکبر الہ آبادی کے کلام سے مناسبت رکھنے والے ان نشتروں کو بخوبی جانتے ہوں گے، اس کے علاوہ شاعرِمشرق :علامہ اقبال کے اشعار بھی آپ کو مل جائیں گے۔ اس کتاب میں کُل انچاس تقریریں ہیں؛ گویا جو طالب علم اس کتاب کو یاد کرلے گا اس کا دامن کم از کم سو معیاری و قیمتی اشعار سے بالیقین مالا مال ہوگا ۔
(٨) ایک کامیاب مقرر بننے کے لیے تلفظ کا صحیح ہونا لابدّی امر ہے، ورنہ بسا اوقات با ذوق سامع کے سامنے دو چار غلط تلفظ پوری تقریر پر پانی پھیر دینے کو کافی ہوجاتے ہیں۔ چونکہ کتاب ایک اعلی و عمدہ قسم کی اردو زبان سے آراستہ و پیراستہ ہے، اس لیے طالب علم کو جگہ جگہ مشکل الفاظ سے واسطہ پڑسکتا ہے، طلبۂ علم کو غلط تلفظ سے بچانے کے لیے معتبر اردو لغات کی مدد سے  مشکل الفاظ پر اعراب لگادیے گئے ہیں ۔
(٩)اس کتاب میں موجود ننانوے فیصد تقریریں وہ ہیں جو کبھی نہ کبھی شعبۂ تقریر و تحریر، جامعہ ڈابھیل کے مسابقوں اور جلسوں کی زینت قرار پائی ہیں۔ اکا دکا بھرتی کی تقریریں ہوسکتی ہیں؛ ورنہ زیادہ تر حصہ "خاصّے کی چیز" کہے جانے کے لائق ہے ۔
(١٠)دسواں نمبر خصوصیت کا نہیں؛ وضاحت کا ہے، اور بہتر ہوگا کہ یہ وضاحت خود مؤلف کے قلم سے ہوجائے، چناں چہ آں موصوف "پیش لفظ" میں رقم طراز ہیں :"نیز یہاں ذکر کیے جانے والے خطابات کا مواد بندے نے مقدور بھر نصوص و ادلۂ شرعیہ کے سہارے جمع کرنے کی کوشش کی ہے؛ مگر اس میں زاویۂ فکر کے بدلنے سے کسی جگہ رائے کا اختلاف ہوسکتا ہے ۔لہذا اسے ایک خاص ترتیب سے تشکیل دیا ہوا گلدستہ سمجھا جائے جو اسی قسم کے پھولوں کے ذریعے الگ ترتیب سے تیار شدہ کسی دوسرے گلدستۂ حسن کے کسی طرح منافی نہیں، ع:
ہر گلے کا رنگ و بوئے دیگر ست"۔
تلک عشرۃ کاملہ
جاتے جاتے 
مولوی فیصل جلگانوی سلمہ جن کی طلب و تڑپ کے بعد یہ تقریریں مؤلف محترم کی بند الماری سے باہر نکلیں،
 دارالحمد انسٹیٹیوٹ سورت کے روح رواں  مفتی طاہر صاحب سورتی مدظلہ اور نوجوان و فعال عالم :عزیزم قاری حمزہ سورتی سلمہ  جن کی کرم فرمائی سے ان تقریروں کی کتابت ہوئی،
 ادارۃ الصدیق کے سرگرم، ذی استعداد، فاضل رفیق :عزیزی مولوی اسامہ جھارکھنڈی زید فیضہ جن کی شبانہ روز کی محنتوں سے سیٹنگ و تزئین ہوئی،
 استاذی المکرم حضرت مفتی ابوبکر صاحب پٹنی مدظلہ جن کی توجہات کی بدولت سر ورق سے لے کر دیدہ زیب طباعت تک کا مرحلہ پایۂ تکمیل کو پہنچا،
 مکرمی و محترمی حضرت اقدس مہتمم صاحب دامت برکاتہم العالیہ جن کی مستجاب دعائیں روزِ اول سے قدم بہ قدم شامل حال رہیں
 اور وہ تمام گمنام خادمانِ اسلام جنہوں نے اس کتاب کی طباعت کے لیے اپنی جیبِ خاص سے رقم عنایت فرماکر طباعت کا راستہ آسان فرمایا؛ 
ان سب حضرات کی خدمت میں دل کی گہرائیوں سے ہدیۂ تشکر و امتنان پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی انہیں دونوں جہا‌ں میں اس کا بہترین بدلہ عنایت فرمائیں ۔
نوٹ:یہ تعارف "شیدائیانِ علم" کے لیے لکھا گیا ہے؛ "طلبگارانِ پی ڈی ایف اول و آخر معذرت قبول فرماکر ممنون و مشکور فرمائیں ۔

کوئی تبصرے نہیں