دنیا کی ترقی کے لئے جدید مگر آخرت کی ترقی کے لئے قدیم ضروری ہے*

*دنیا کی ترقی کے لئے جدید مگر آخرت کی ترقی کے لئے قدیم ضروری ہے*

جدید فکر، جدیدیت، جدید طرز، جدید تعلیم، جدید سوچ، تبدیلی، paradigm shift, modern thought جیسے الفاظ اور ان کے مفہوم آج کی دنیا میں خوب رائج کئے جارہے ہیں جو سننے میں بہت پرکشش اور کانوں میں رس گھولتے ہیں، اور یہ ترقی کے ضامن سمجھ لیئے جاتے ہیں. بڑی مصیبت یہ ہے کہ جدید کو علی الاطلاق باعثِ ترقی اور کامیابی کی شاہ کلید سمجھ لیا گیا ہے اور "جدید جدید جدید" پڑھتے پڑھتے سنتے سنتے اس کا اثر دماغ کے خلیوں میں اتنا پیوست ہوتا جارہا ہے کہ وہ عموماً یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ جدید کہاں مفید ہے اور کہاں نقصان دہ؟ وہ ایک ہی لاٹھی سے ہر ایک چیز کو ہانکنے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں. 

ہمارے بعض بیچارے مسلم مفکرین بھی اس complex اور احساس کے شکار نظر آتے ہیں اور اسلامی تعلیمات، فکر وعقائد میں بھی جدید کا راگ الاپتے دیکھے جاتے ہیں. بعض تو اور آگے بڑھ کر جدید اسلام تک کی بات کر بیٹھتے ہیں جبکہ جدید اسلام تو سرے سے کوئی اسلام ہی نہیں ہے بلکہ ارتداد کا خوبصورت نام اور sugar coated زہر ہے. جدیدیت کے  لئے یہ اضطراب احساسِ کمتری اور مغربی افکار سے مرعوبیت کے انتہائی درجے کا نتیجہ ہے جو چور بن کر ان کے دلوں میں چھپا رہتا ہے. 

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے معاملے میں ایک مسلمان کو جدید کی معراج تک پہنچنا چاہئے کیونکہ "الدنیا خلقت لکم یعنی دنیا تمہارے لیئے پیدا کی گئی ہے" کا فرمانِ رسول موجود ہے. مسلمانوں کو کائنات کے سربستہ رازوں کو کھولنے یعنی سائنس میں اول نمبر پر رہنا چاہئے اور ماضی میں وہی اس کے سرخیل تھے، انہیں جدید سے جدید تر کی کھوج میں جدوجہد کرنی چاہئے اور دنیا میں جدید کے ذریعے ترقی کرنی چاہئے. مگر مذہب اور مذہبی تعلیمات وعقائد کے معاملے میں جدید کا فلسفہ مہلک ہے. مذہب کے معاملے میں جدید کو اختیار کرنے کی بجائے 1500 سو سالہ قدیم اسلام کو ہی اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ درحقیقت وہ قدیم قدیم نہیں بلکہ دائمی حقائق ہیں جو اس رب اور خالق کی طرف سے ہے جو تمام زمانوں کا خالق ہے اور جو ہر چیز سے واقف ہے. لہذا دنیا کی ترقی جدید پر قائم ہے اور آخرت کی ترقی قدیم یعنی 1500 سوسالہ قدیم اسلام پر قائم ہے. اس سے ہٹ کر چلنے میں دونوں جگہ بربادی ہے.

موجودہ نعرہِ جدیدیت سے متاثر ہوکر اور اس کے بہاؤ میں آکر اسلامی عقائد وافکار میں تبدیلی اور جدیدیت کی بات کرنا دراصل تحریف کے سوا کچھ نہیں ہے.
لہذا سخت ضرورت ہے کہ باشعور مسلمان علی الاطلاق جدید پر ٹوٹ پڑنے کی بجائے اسے دو حصوں میں تقسیم کریں. دنیا کے معاملات میں جدید بلکہ جدید ترین کو اختیار کریں اور دین ومذہب کے معاملے میں قدیم کو اختیار کریں. اس طرح ہم اسلام میں تحریف کرنے سے بچ جائینگے اور دنیا وآخرت دونوں جگہ کامیاب رہینگے ان شاء اللہ. جدید کے چکر میں آخرت جو دائمی ٹھکانہ ہے اسے برباد کرلینا دانشمندی نہیں ہے. "وانتم خلقتم للآخرہ یعنی تم آخرت کے لئے پیدا کیئے گئے ہو" صریح فرمانِ رسول کا یہی تقاضا ہے. مسلمان کی زندگی قدیم وجدید کا سنگم ہونا چاہئے. صرف جدید جدید بلاشبہ اسلام میں تحریف ہے اور صرف قدیم قدیم یقیناً اللہ کی دنیوی نعمتوں کی ناقدری ہے.

محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی

مورخہ 9 جنوری 2022

کوئی تبصرے نہیں