ملنابہت ضروری ہے
ملنا بہت ضروری ہے
ودود ساجد
(آج کے انقلاب میں شائع ہنگامی کالم "نوائے امروز" )
قانون اپنا کام کرتا ہے۔لیکن اسی وقت جب قانون کے محافظ ادارے اس سے کام لینا چاہیں۔ شرانگیزی کرنے والے لوگوں اور اداروں کے خلاف کارروائی کرنے میں جس مجرمانہ تساہلی سے کام لیا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ دھرم سنسد کے معاملہ میں بھی عجیب وغریب قسم کی کارروائی کی گئی۔پولیس نے تقریباً ایک مہینہ تک شکایتوں کو ٹھنڈے بستے میں ڈالے رکھا۔جب پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوگیا اورانتظامیہ پر براہ راست حکومت کی بجائے الیکشن کمیشن کا کنٹرول ہوگیا تو اتراکھنڈ کی پولیس نے کچھ حرکت دکھائی۔نامزد شکایت 10 لوگوں کے خلاف تھی لیکن اتر اکھنڈ کی پولیس نے صرف لکھنئو کے ملعون کو پکڑا۔۔
جس گاڑی سے جتیندر تیاگی کو پکڑا گیا تھا اس میں ڈاسنہ مندر کا پجاری اور جونا گڑھ اکھاڑے کا (چار میں سے ایک مہامنڈلیشور) یتی نرسنگھانند بھی موجود تھا۔لیکن یتی کو نہیں پکڑا گیا۔اس نے پولیس کوجتیندر تیاگی کے خلاف کارروائی سے کافی دیر تک روکے بھی رکھا۔اس وقت بھی پولیس نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔اس نے خود کہا کہ جتیندر تیاگی کے ساتھ ہمارے نام بھی شکایت میں شامل ہیں اور یہ کہ جو کچھ اس نے کہا وہ ہم نے بھی کہا لہذا ہمیں بھی گرفتار کرو۔لیکن پولیس نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔اس نے یہ بھی کہا کہ جتیندر تیاگی ہمارے بھروسہ پر ہی تو ہندو بنا ہے۔اس نے پولیس افسروں سے یہ بھی کہا کہ تم بھی مروگے اور تمہارے بچے بھی مریں گے۔اس پر بھی پولیس نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس کے بعد یتی اور اس کے ساتھیوں نے پولیس تھانہ پر دھرنا دیدیا۔
اب مجبوراً پولیس نے یتی کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔اس کے خلاف ایک سے زائد شکایتیں درج ہیں۔تادم تحریر دونوں 14روز کی حراست میں ہیں۔یہ بات درست ہے کہ پولیس نے ان کی کھلی آئین اور قانون مخالف شر انگیزیوں کے خلاف فوری طورپر ایکشن نہیں لیا۔وجہ بالکل واضح ہے کہ پولیس سمجھتی ہے کہ ان شر انگیزوں کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔ایسے لوگ مرکزی اور ریاستی حکومتوں میں بیٹھے ہوئے ہیں جو ایسے شر انگیزوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔پولیس ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے تکلف کرتی ہے۔اس سے ان کے حوصلے مزید بڑھتے ہیں۔لیکن ان کے حوصلوں کو ایک اور عنصر فروغ دے رہا ہے۔اس پر ہمارے قائدین کی توجہ نہیں ہے۔۔
یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ہمارے قائدین کیوں اس طرح کے غیر معمولی تشویش ناک حالات پر وزیر اعظم سے جاکر نہیں ملتے؟ 2014 سے 2019 کے درمیان والی پہلی مدت کار میں ہمارے کئی مذہبی قائدین مختلف مواقع پر وزیر اعظم سے ملتے رہے ہیں۔یہاں تک کہ چند بڑے پروگراموں میں اسٹیج پر بھی ایک ساتھ بیٹھے ہیں۔وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں کسی پارٹی کے نہیں۔۔
2014 کے بعدمیں نے بارہا عرض کیا ہے کہ ابھی سیاسی محاذ آرائی کا وقت نہیں ہے۔لیکن اس طرح کے حالات پر حکومت سے اور خاص طور پر وزیر اعظم سے مل کر ان تک اپنا احتجاج پہنچانا بہت ضروری ہے۔ان سے پوچھنا ضروری ہے کہ آخر مسلمانوں کا قصور کیا ہے؟ مسلمانوں نے ان شرانگیزوں کا کیا بگاڑا ہے؟ ایسا کون سا کام مسلمان کر رہے ہیں کہ جو خلاف قانون ہو یا جس سے ان شر انگیزوں کو کوئی نقصان پہنچا ہو؟ مسلم قائدین کی طرف سے ایسی کسی کوشش کی غیر موجودگی سے ایک طرف جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے شرانگیزوں کے یکطرفہ دبائو میں ہیں وہیں اس سے ایک غلط پیغام عالمی سطح پر بھی جارہا ہے۔
ظلم وزیادتی پربلند ہونیوالی ایک عام ہندوستانی کی آواز کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔قومی میڈیا میں اس کی آواز کو جگہ بھی نہیں دی جارہی ہے۔جب قائدین وزیر اعظم سے ملیں گے توعالمی سطح پر بھی اس کا ایک پیغام جائے گا اور ڈرے سہمے مسلمانوں کی بھی ہمت بندھے گی۔یتی اور جتیندر تیاگی کے خلاف پہلی شکایت ایک مسلم نوجوان نے ہی کی تھی۔بلاشبہ جمعیت علماء سپریم کورٹ پہنچی۔اس کے بعد صحافی قربان علی بھی سپریم کورٹ پہنچے۔وہ سپریم کورٹ کی ’رخصت‘ کا فائدہ اٹھاکر مسلسل شرانگیزوں کا پیچھا بھی کر رہے ہیں۔ایسے متحرک لوگوں کو قائدین کی اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔
کیا مسلم قائدین اس سے پہلے کسی وزیر اعظم سے نہیں ملے؟ جب قائدین وزیر اعظم نریندر مودی سے ملیں گے اور ان شرانگیزوں کی شکایت کریں گے تو کیا وہ یہ کہہ دیں گے کہ شرانگیز جو کر رہے ہیں وہ ٹھیک کر رہے ہیں؟ وہ یہ کہہ ہی نہیں سکتے۔ لیکن وہ جو کچھ بھی کہیں گے اس کا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ضرور اثر پڑے گا۔لہذا مسلم قائدین اور دانشوروں کو چاہئے کہ وہ بلا تاخیر مختلف ممبران پارلیمنٹ کو ساتھ لے کر وزیر اعظم سے ملاقات کا وقت مانگیں۔اس انتظار میں نہ رہیں کہ وزیر اعظم انہیں بلائیں گے یا کوئی انہیں وزیر اعظم سے ملوائے گا۔ یہ حکومت 2024 تک ہے۔اس وقت تک کیا شرانگیزوں کے خلاف کوئی سیاسی پہل نہیں کی جائے گی؟
Post a Comment